ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
( دینی مسائل ) ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں واقع ہونے کے دلائل : 1۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آکر کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اَب اِسکی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے(کہ ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دے دیں اور طلاق دینے کے بہتر طریقوں کو چھوڑ دیا کہ یا تو صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دیتا یا ہر ماہ میںایک طلاق دیتا ) اور اَب اِس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ 2 ۔ ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکی خدمت میں حاضر ہوکر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اِس پر سکوت اِختیار کیا۔ (اُن کے شاگرد کہتے ہیں کہ ) ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اِس عورت کو واپس اِسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا اِرتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ اے ابن عباس اے ابن عباس! بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ نہ ڈرے تو اُس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے(کہ طلاق دینے کے پسندیدہ طریقے کو چھوڑ کر طلاق دینے کا غیر پسندیدہ طریقہ اختیار کیا) تو اَب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ تمہاری بیوی اَب تم سے با لکل جدا ہوگئی۔ 3 ۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت ابو موسی اشعری ، حضرت عبداللہ بن عمرو ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی فیصلہ منقول ہے۔ 4 ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بیشک رسول اللہ ۖ نے (اِس صورت میں ) مجھے رُجوع کرنے کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی اَور مرد سے نکاح نہ کرلے۔ اور اسی طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔ غرض اِس بات پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع واتفاق ہے کہ اگر شوہر ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدے یا یوں کہہ دے کہ تجھے تین طلاق تو تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔