ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
کے عقب میں جھولتے اُس کے مقدس پرچم کو جا لگا اور تمام تر حفاظتی حصاروں کے باوجود اپنے کو دُنیا کی سپرطاقت کہلانے والے کا سر خدائے بزرگ وبرتر نے بھری مجلس میں خَم کرادیا۔ عراقی صحافی'' منتظر الزیدی ''کے دو پائوں تھے اِس لیے جوتے بھی دو ہی تھے مگر برا ہوا اُن نامراد صحافیوں کا جنہوں نے اِس موقع پر اپنے ہم پیشہ صحافی بھائی کی مدد نہ کرکے ایک بری مثال قائم کردی اگر اُنہوں نے ساتھ دیا ہوتا تو صرف بیس صحافیوں کے چالیس جوتے بھی وہ کام کردِکھاتے جو رہتی دُنیا یادرَکھا جاتا مگر کیا کیا جائے یہ اچھا نصیب صرف منتظر الزیدی کے لیے لکھا جا چکا تھا تاہم صحافی کی اِس جرأ ت سے باقیوں کے ذمہ کا قرضہ ادا نہیں ہوا اَلبتہ اِس جوتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے تمام فرعونوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ میری ڈھیل کا غلط مطلب نہ لیں اپنی حد میں واپس آجائیں اِسی میں اُن کی خیر ہے ورنہ تو اِنہیں مظلوموں میں سے کسی کے ہاتھوں میں تم کو رَوند ڈالوں گا اور کوئی تم کو بچا نہیں سکے گا۔ وضاحت گذشتہ ماہ کے شمارہ میں'' اِفتتاحی بیان ''کے زیر عنوان صفحہ ٣٢ پر ایک عبارت اِس طرح شائع ہوئی ہے : ''ہمارے جو مفتی ہیں ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب اِس وقت مفتی اعظم وہی ہیں پاکستان کے اَور کوئی نہیں ہے مفتی اعظم پاکستان .....'' یہ بات سبقت ِلسانی کی وجہ سے اِس اَنداز میں ادا ہو گئی ورنہ میری مراد صرف یہ تھی کہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کی دینی اور فقہی خدمات کا تقاضا ہے کہ اُن کو بجا طور پر مفتی اعظم پاکستان قرار دیا جائے ۔ مقصد استحقاق ہے انحصار نہیں ہے وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِےْم ۔(محمود میاں غفرلہ)