ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
اور جب حضرت عائشہ آپ کے ساتھ رہی سہیں تو اُن کی رائے یہ ہوئی وَاَیُّکُمْ یَمْلِکُ اِرْبَہ کَمَا کَانَ یَمْلِکُ اَور وَکَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبِہ نیز بہت سی حدیثیں اِس حسن ِ معاشرت کی تعلیم کے لیے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی موجود ہیں۔ میرا ذہن اہل ِ یورپ کے اعتراضات سے مرعوب نہیں ہوتا، والحمد للہ۔ اَور اُن کے ایسے اعتراضات آج کل ختم ہوچکے ہیں وہ عربوں کی دولت سے مرعوب ہیں بلکہ وہاں کے رہنے والے دوست لکھتے ہیں کہ اَب تبلیغ کا بہترین موقع ہے۔ مودُودی صاحب میں یہ بھی کمی تھی کہ وہ یورپ کے اعتراضات سے مرعوب ہوکر احادیث کی تضعیف کردیتے تھے حالانکہ یورپ میں سوائے صحیح تجارت کے باقی سب خرابیاں موجود تھیں اَور ہیں اَور تجارت میں سچائی اُن کی تجارتی ضرورت سے ہے اِس لیے میں نے اِس مسئلہ میں کبھی تردید ِ رُواة کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ اُن کی باتوں کی وجہ سے جرح ِ احادیث کرنے لگوں۔ آنجناب نے جو مقدمۂ اُولیٰ تحریر فرمایا ہے (یعنی یہ گرامی نامہ) اِس سے جو اِشکالات سامنے آئے اُن کے بارے میں عرض کرتا ہوں۔ ١ (١) روایت ِ تزوج کے فقط حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی منقول ہونے سے کوئی ضعف نہیں پیدا ہوتا۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں راوی ایک ہی صحابی ہیں۔ اِذَا کَانَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ کے بارے میں بھی یہی لکھا گیا ہے کہ اِتنی ضرورت کی چیز ہے خصوصًا عرب میں اَور راوی ایک ہیں بلکہ ایک ایسی روایت کی طرف توجہ مبذول کراتا ہوں جو خطبہ میں آپ نے اِرشاد فرمائی اُس کے راوی صرف ابن ِعمر ہیں حالانکہ خطبہ کی بات تو بہت عام ہونی چاہیے تھی، ملاحظہ ہو بخاری ص ٦٨۔ باب الحَِلَق والجلوس فی المسجد۔ اِس لیے یہ کوئی اشکال نہیں کہ اِس کی راوی فقط حضرت عائشہ ہی کیوں ہیں کیونکہ وہ ہی صاحب ِ معاملہ ہیں۔ اشکال تو اُس وقت ہوتا کہ معاملہ تو حضرت عائشہ کا ہوتا اَور راوی کوئی اَور ہوتا۔ دیکھا تو یہ جائے گا کہ علمائے اُمت نے اِسے کیا درجہ دیا ہے اَور وہ صحابی مَارُوِیَ پر قائم رہے ہیں یا نہیں۔ تو اِس حدیث سے ہمیشہ کئی طرح استدلال کیا گیا ہے۔ ترمذی میں ہے : ١ نوٹ : حضرت نے حکیم صاحب کے قیاسی نمبروں پر اکتفا فرما کر جوابات تحریر فرمائے ہیں ۔