ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
مستقیم میں ذکر کیا گیا ہے۔ ص86 سطر11 ملاحظہ فرمائیے۔ ٭ سلوک کے طریقوں میں یہ طریقہ (قرآن مجید میں اِنہماک) نہایت قوی اور عمدہ ہے اگرچہ اِس میں مدت زیادہ لگتی ہے مگر نہایت مامون اور محفوظ طریقہ ہے خطرات سے بالکل خالی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی طریقہ ہے۔ ذکر کے طریقہ میں اگرچہ مدت کم لگتی ہے عشق کی سوزش اور محبت محبوبِ حقیقی کی آگ تیزی کے ساتھ منزلِ مقصود کی طرف پہنچادیتی ہے مگر اِس میں خطرات اور مخاوِف بہت ہیں بہرحال اِس طریقِ کار میں جس قدر جد و جہد ہوسکے عمل میں لاتا رہے۔ ہاں اگر یہ تصور باندھ سکے کہ پروردگار عالم میری زبان سے پڑھ رہا ہے اور میرے نفس کو اور تمام اپنے بندوں کو شہنشاہی خطاب اپنی عظمت اور جلال کی شان اور رحمت و رأفت کی صفت سے کررہا ہے تو بہت بہتر ہے معافی کا دھیان رکھتے ہوئے عمل فرمائیں اِنشاء اللہ تعالیٰ بہتر نتائج پیدا ہوں گے۔ ٭ اِتنا تشدد نفس پر نہ کیجیے کہ صحت پر اثر پڑے۔ ہمارے زمانہ کے اَعضاء اور اَغذیہ اِس تشدد کے متحمل نہیں جو اُس زمانہ اور اُن اقطار و اَمزجہ کے مناسب تھے۔ ٭ جس طرح طب کی کتابیں دیکھ کر مریض اپنا علاج نہیں کرسکتا اِسی طرح ضیاء القلوب وغیرہ کتب ِ سلوک سے تصوف کا سلوک غلط کاری ہے۔ ٭ اَعمال ِسلوک کے لیے مرید ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ہر عمل کے لیے شیخ کی خصوصی اجازت ضروری ہے۔ ع کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا ٭ عرف میں ''تصورِ شیخ'' کسی مقدس اور بزرگ کی صورت کو ذہن میں دھیان لانے اور جمانے کا نام ہے بالخصوص اپنے مرشد کے چہرے کو خیال میں جمانے اور حاصل کرنے کو تصورِ شیخ کہتے ہیں۔ ٭ مرشدوں کی نسبت یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر دم ساتھ رہتے ہیں اور ہر دم آگاہ رہتے ہیں یہ خدا ہی کی شان ہے۔ گہہ و بیگاہ بطور ِخرق بعض اَکابر سے ایسے معاملات ظاہر ہوتے ہیں اِس سے جاہلوں کو یہ دھوکہ پڑا ہے۔