ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
یہودی خباثتیں ( تحریر : فلسطینی مفکر عبد اللہ التل ، ترجمہ و تلخیص : مولانا سےّد سلمان حسینی ندوی ) جیسی کرنی ویسی بھرنی : یہودیوں کوجو ں ہی یورپ کے مختلف ممالک میں استقرار حاصل ہوا،اوراُن کی آبادی پھیلتی چلی گئی،تو وہ اپنی شرارتوں،خباثتوں اور فتنہ انگیز یوں کا جال بھی بچھاتے چلے گئے ،اور اُن ممالک کی اصل آبادی پر زبین تنگ ہوتی گئی ۔عام طور پر لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہودی آبادی اِن کے وجود ،اِن کے مذہب واخلاق ،اِن کی معاشرت ومعاشیات کے لئے گھن ثابت ہو رہی ہے۔گیارہویں صدی عیسوی سے اُنیسویں صدی کے درمیانی عرصہ تک مغربی دُنیا کی مختلف اقوام میں یہ خیال زور پکڑتا گیا، اِن قوموں میں یہ احساس شدید سے شدیدتر ہوتا گیا کہ یہودیوں کے ساتھ کسی معاشرہ میں رہنانا ممکن ہے ،وہ جہاں بھی رہتے ہیں دُوسروں کو زیر ِدست کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،اِن کے وجود سے نہ ملکی استحکام باقی رہتاہے،نہ معاشیات کی آزادی رہتی ہے،نہ دینی واخلاقی قدر وں کی ۔ یہودی ،حقیقی خداکے مقابلہ میں ''یہوہ ''،''یہودیوں کے خدا''، ''لشکروں کے خدا''اور''درندگی اور خونخواری کے خدا''کا تصوررکھتے ہیں۔ خاص طور پر عیسائیوں کا یہ مسلسل تاریخی تجربہ رہا ہے کہ یہودیوں نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسی کو سولی پر چڑھانے (حسب عقیدئہ مسیحیین )کا جرم کیا، بلکہ وہ عیسٰی مسیح اور اُن کی ماں مریم (علیہما السلام )اور خود مذہب ِعیسائیت کو گالی گلوچ کا نشانہ بناتے رہے،اِنہوں نے ہی عیسائیوں کو فرقوں میں بانٹا،کیتھولک اور پروٹیٹنٹ فرقوں کے درمیان لڑائیاں کروائیں ،اور کروڑوں عیسائیوں کو جنگوں کی جہنم میں جھونک دیا،اور براہِ راست اُن کے مظالم کی داستان تو مستقل ایک طویل داستان ہے۔