ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
ز نماز فجر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ درسِ قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ شرک و بدعت اور غلط رُسوم و رواج کا خاتمہ اور اُن کے خلاف جدوجہد حضرت کا خصوصی مشغلہ تھا اور نوشکی چاغی میں شرک و بدعت کے خاتمے کا سہرا حضرت ہی کو جاتا ہے۔ اِن معمولات کے علاوہ تبلیغی جماعت کی مکمل حمایت و نصرت کے ساتھ ساتھ حضرت جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے نفاذِ اسلام کی مکمل کوشش کرتے رہے اور ساری زندگی جمعیت کے امیر رہے اور علاقے میں واحد شخصیت حضرت کی تھی کہ جس نے تن ِتنہا نامساعد حالات کے باوجود جمعیت کا پرچم تھامے رکھا جبکہ دیگر ہم عصر مشہور علماء جماعت ِاسلامی کے ساتھ تھے۔ دُوسری طرف عوام میں اُس وقت کی معروف قوم پرست پارٹی نیپ کا بڑا چرچا تھا۔ ایسے ماحول میں جمعیت کا نام لینا کوئی جرم سے کم نہ تھا لیکن اُن ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اِس مرد ِقلندر نے محض توکلاً علی اللہ بڑے بے خوف ہوکر ڈٹ کر انتخابات و ہر میدان میں اُن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ غرض اِس علاقے میں جمعیت ہو یا تبلیغی جماعت، اہل مدارس ہوں کہ علماء کرام، بلامبالغہ یہ سب حضرت کے مرہونِ منت ہیں۔ نیز حضرت کی خدماتِ جلیلہ اور ہمہ گیر شخصیت کی وجہ سے وقت کے عظیم لیڈر اور جمعیت علماء اسلام کے بانی و رہنما حضرت مولانا مفتی محمود اور حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی اور اُن کے بعد مولانا فضل الرحمن جیسے بڑے حضرات نے حضرت صالح جان کے گھر تشریف لاکر اُن پرمکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ آخر میں حضرت کی بہادری و دلیری کے ایک واقعہ پر بات ختم کرتے ہیں وہ یہ کہ ملت ِ اسلامیہ کے ساتھ ہمدردی اور کفار بالخصوص فرنگی سے نفرت حضرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت تعلیم کے آخری مراحل سے گزررہے تھے کہ ہندو پاک تقسیم سے پہلے سکھوں کی لڑائی شروع ہوگئی۔ کوئٹہ میں کرفیو نافذ تھا۔ رات کے وقت انگریز پولیس نے کسی مسلمان بچے کو پکڑکر لے جانے کی کوشش کی کہ بچے نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا اور خوف کے مارے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ لیکن حضرت کا جزبہ ایمانی پہلے سے انگریز کے خلاف موجزن تھا۔ اِس واقعے نے حضرت کو مزید بے چین کردیا تو بے ساختہ ہوکر حضرت اپنی کلہاڑی لے کر انگریز افسر پر جو وہاں کھڑا تھا شیر کی طرح حملہ آور ہوئے۔ گردن کے بجائے وار اُس کی آنکھ پر آگیا جوابًا اُس نے پستول سے فائر کیا حضرت کو تین یا چار گولیاں لگیں مگر بالآخر حضرت صحت یاب ہوگئے اور انگریز مردار جہنم واصل ہوگیا اور علماء وقت نے حضرت کو بڑی خراجِ تحسین پیش کی۔