ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
گلدستہ ٔ احادیث ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب، مدرس جامعہ مدنیہ لاہور ) حضور علیہ السلام کی اُمت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی دُعاء : عَنْ سَعْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ مِّنَ الْعَالِیَةِ حَتّٰی اِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِیْ مُعَاوِیَةَ دَخَلَ فَرَکَعَ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہ وَدَعَا رَبَّہ' طَوِیْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَیْنَا فَقَالَ سَأَلْتُ رَبِّیْ ثَلٰثًا فَاَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّیْ اَنْ لَّایُھْلِکَ اُمَّتِیْ بِسَنَةٍ فَاَعْطَانِیْھَا وَسَأَلْتُہ اَنْ لَّایُھْلِکَ اُمَّتِیْ بِالْغَرْقِ فَاَعْطَانِیْھَا وَسَأَلْتُہ اَنْ لَّایَجْعَلَ بَأْسَھُمْ بَیْنَھُمْ فَمَنَعَنِیْھَا۔ (مسلم ج٢ ص ٣٩٠ کتاب الفتن واشراط الساعة ، مشکٰوة ص ٥١٢) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسولِ اکرم ۖ عوالی ِمدینہ سے مدینہ طیبہ تشریف لارہے تھے کہ آپ کا گزر (اَنصار کے ایک قبیلہ) بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور اُس میں دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ نے اپنے پروردگار کے حضور میں بڑی لمبی دُعاء مانگی، پھر جب آپ نماز و دُعاء سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں نے آج (دُعاء میں) اپنے پروردگار سے تین چیزیں مانگی تھیں اُن میں سے دو چیزیں تو مجھے عطا ء فرمادی گئیں اور ایک چیز سے منع کردیا گیا۔ ایک چیز کی درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری اُمت کو عام قحط میں ہلاک نہ کیا جائے، یہ درخواست قبول فرمالی گئی، دُوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری اُمت کو پانی میں غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے میری یہ درخواست بھی قبول فرمالی گئی، تیسری درخواست یہ تھی کہ میری اُمت کے لوگ آپس میں دست و گریباں نہ ہوں (یعنی مسلمان مسلمان