ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
جائے گا جتنا بعد میں بڑھایا تھا اُس کو شمار نہ کریں گے ۔اِسی طرح عورت نے اپنی خوشی ورضا مندی سے اگر کچھ معاف کردیا تو جتنا معاف کیا اتنا معاف ہوگیا اَب اُس کے پانے کی مستحق نہیں اور اگر خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہو جائے تو باقی مہر کا نصف ملے گا۔ مسئلہ : اگر شوہر مہر پہلے دے چکا تھا پھر رُخصتی سے پیشتر طلاق دی تو عورت کونصف مہر واپس کرنا ہو گا۔ پورا مہر کب مؤکد ہوتا : پورا مہر محض عقد ِنکاح سے ہی واجب ہوجاتا ہے لیکن اِس میں احتمال ہوتا ہے کہ اگر کہیں رُخصتی سے قبل طلاق ہو جائے تو مہر نصف ملے گا اِس لئے پورا مہر مندرجہ ذیل اسباب سے مؤکد ہوتا ہے۔ 1۔ میاں بیوی کا صحبت کرنا ۔ 2۔ شوہر کا بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ میں رہنا۔ خلوت صحیحہ وہ خلوت وتنہائی ہوتی ہے جس میں جماع کرنے سے کوئی حسی ،طبعی یا شرعی رُکاوٹ نہ ہو۔ حسی رکاوٹ کی مثال یہ ہے کہ شوہر یا بیوی کو ایسا مرض لاحق ہو کہ اُس کے ہوتے ہوئے جماع پر قدرت نہ ہو یا جماع سے ضرر ہوتا ہواور شرعی رُکاوٹ کی مثال یہ ہے کہ اُن میں سے کوئی حالت ِاحرام میں ہو۔ 3 ۔ رُخصتی سے پیشتر شوہر یا بیوی کی وفات ہونا ۔ 4۔ رُخصتی کے بعد بیوی کو ایک طلاق بائن دی پھر عدت کے دوران دوبارہ نکاح کرلیا تو دُوسرا مہر فوراً ہی مؤکد ہو گیا ۔ مسئلہ : کسی نے ہزاریادس بیس ہزار اپنی حیثیت کے موافق کچھ مہر مقرر کیا اور بیوی کو رُخصت کرا لایا اور اُس صحبت سے تو نہیں کی لیکن تنہائی میں میاں بیوی کسی ایسی جگہ رہے جہاں صحبت کرنے سے روکنے والی اور منع کرنے والی کوئی بات نہ تھی تو پورا مہر جتنا مقرر کیا ہے ادا کرنا واجب ہے ،اور اگر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور مرد نے طلاق دے دی توآدھا مہر دینا واجب ہے ،اور اگر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ میاں بیوی میںسے کسی ایک کا انتقال ہوگیا تب بھی پورا مہر دینا واجب ہے۔ مسئلہ : اگر دونوں میں سے کوئی بیمار تھا یا رمضان کا روزہ رکھے ہوئے تھا یا حج کا احرام باندھے ہوا