ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( مہر کا بیان ) مہر وہ مال ہے جو نکاح میںاِس علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے کہ مرد کی نظر میں وہ عورت جس نے اپنے آپ کو اِس مرد کے سپرد کردیا ہے قابل قدراور صاحب وقعت ہے ۔ مہرکاحکم : نکاح میں چاہے مہر کا ذکرکرے چا ہے نہ کرے ہر حال میں نکاح ہو جاتا ہے ،لیکن مہر دینا پڑے گابلکہ کوئی یہ شرط کرے کہ ہم مہر نہ دیں گے بغیرمہرکے نکاح کرتے ہیں تب بھی مہر دینا پڑے گا۔ مہر کی کم سے کم مقدار : یہ دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اُس کی قیمت ہے ۔سو اگر کسی نے ایک تولہ چاندی یا ڈیڑھ تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر مقرر کرکے نکاح کیاتب بھی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اُس کی قیمت دینا پڑے گی۔شریعت میں اِس سے کم مہر نہیں ہو سکتا۔ مہرکی زیادہ سے زیادہ مقدار : اِس کی کوئی حد نہیں ،چاہے جتنا مقرر کرے لیکن مہر کا زیادہ بڑھانا اچھا نہیں ہے ۔ تنبیہہ : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ ۖ کی ازواج ِمطہرات کا (سوائے حضرت اُم ِحبیبہ رضی اللہ عنہاکے )مہر ایک سواکتیس تولہ تین ماشہ چاندی تھی ۔( موجودہ رقم : 36,750 روپے) رُخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے : اِس صورت میں طے شدہ مہر کا نصف عورت کو دلایا جائے گا۔ مسئلہ : ایک ہزار روپے یا دس ہزار روپے اپنی حیثیت کے موافق مہر مقرر کیا پھر شوہر نے اپنی خوشی سے کچھ مہر اور بڑھا دیا اور کہا ہم ہزار کی جگہ ڈیڑھ ہزار دیں گے تو جتنے روپے زیادہ دینے کو کہے وہ بھی واجب ہو گئے ،نہ دے گا تو گناہ گار ہو گا اور اگر خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق مل گئی تو جس قدر اصل مہر تھا اُسی کا آدھا دیا