ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
کر پیدا کیا جائے وہ ضرورت نہیں ،اور اگر دِل میں بہت ہی تقاضا اِس سامان کے خریدنے کا ہو تو خریدلو اور اطمینان سے بیٹھ کر سوچتے رہنا۔ اگر اسراف ہونا معلوم ہو تو خیرات کردینا ورنہ استعمال کرلینا۔ دُوسروں کے کپڑے دیکھ کر خود اُسی طرح کے کپڑے بنوانا : ایک عورت نے لکھا کہ حضرت اقدس میرا دل چاہتا ہے کہ اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہناکروں۔ اللہ تعالیٰ نے دے بھی رکھا ہے اور نیت بھی یہ ہوتی ہے کہ میرے شوہر خوش رہیں اور میرے شوہر بھی یہ چاہتے ہیں۔ مگر مرض یہ ہے کہ جب کسی عورت کو عمدہ کپڑے پہنے دیکھتی ہوں تو دل یہ چاہتا ہے مگر کبھی فرمائش بھی کردیتی ہوں اور پھر مل بھی جاتا ہے اگر یہ مرض ہو تو علاج اِرشاد فرمائیں۔ فرمایا زینت اختیار کرنے کے درجات ہیں۔ افراط تفریط (یعنی کمی و زیادتی) مذموم ہے اور اعتدال (یعنی درمیانی طریقہ) محمود اور پسندیدہ ہے۔ صورت ِمذکورہ میں اعتدال یہ ہے کہ کسی کو دیکھ کر اُس وقت مت بنائو۔ اگر توقف سے (یعنی وقت گزرجانے کے بعد ذہن سے نکل جائے تو فبھا (بہت اچھا) اور اگر نہ نکلے تو جس وقت کپڑوں کے بنانے کی ضرورت ہو اُس وقت بنالو۔ اگر اتفاقًا نہ مل سکیں تو جانے دو۔ اور اگر دیکھو کہ اِتنی مدت تک (انتظار کرنے سے طبیعت) مشغول رہے گی۔ پسند کے وقت خریدکر رکھ لو مگر بنائو مت۔ بنائو اُس وقت جب نئے کپڑوں کے بنانے کی ضرورت ہو تاکہ اِس کے عوض کپڑا بچ جائے اور اگر تمہارے شوہر تم کو جیب خرچ بھی دیتے ہوں تو ایسا کپڑا اپنی جیب خرچ کی رقم سے خریدو تاکہ نفس حدود میں رہے(کمالات ِاشرفیہ ص ٩٧)۔ (جاری ہے) بقیہ : حضرت فاطمہ کے مناقب اللہ پاک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدل ڈالیں، چنانچہ قرآن مجید میں یہ مضمون موجود ہے۔ اللہ کی ذات ہمیشہ یکساں حالت پر ہے تغیر و تبدل سے پاک ہے، اگر اب بھی مسلمان دین پر پورا عمل کریں، انشاء اللہ تعالیٰ حق تعالیٰ اُن کو وہی نعمتیں میسر فرمادیں۔ مسلمان بدل گئے خدا کی حالت تو نہیں بدلی، اُس میں نعوذ باللہ کچھ نقصان اور مجبوری نہیں وہ تو ہر زمانہ میں اپنے ذاتی و صفاتی کمالات میں یکتا اور واحد اور ہر شے پر قادر ہے ،خوب سمجھ لو۔ (جاری ہے)