ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
شریعت کے موافق شادی کی سوجھے گی۔ صاحبو! شادیوں میں بہت اختصار کرنا چاہیے کہ بعد میں افسوس نہ ہو کہ ہائے ہم نے یہ کیا کیا۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ ہی رقم ہو تو اُس کو اِس طرح برباد کرنا مناسب نہیں بلکہ دُنیا دار کو کچھ رقم جمع بھی رکھنا چاہیے، اِس سے دل کو اطمینان رہتا ہے۔ (الکمال فی دین النساء ص ١١٢) غمی کی رسموں میں کوتاہی اور فضول خرچی : ایک کوتاہی عورتوں میں یہ ہے کہ غمی کے موقعوں پر بھی بہت اِسراف کرتی ہیں بھلا وہاں خرچ کا کیا موقع ،وہ تو کوئی فخر کا موقع نہیں بلکہ عبرت کا موقع ہے۔ مگر اِن کے یہاں غمی میں بھی خاص بارات کا اہتمام ہوتا ہے۔ پھر حیرت تو اُن جانے والیوں پر ہے کہ جہاں کسی کے گھر موت ہوئی اور یہ گاڑیاں لے کر اُس کے گھر پہنچ گئیں ۔اب اِس غریب پر ایک تو موت کا صدمہ تھا ہی، دُوسرا یہ وبال سر پر آکھڑا ہوا کہ آنے والیوں کے کھانے کی فکر کرے، پان چھالیا کا انتظام کرے۔ پھر اگر ذرا بھی کسی بات میں کوتاہی ہوگئی تو آنے والیاں طعنے دیتی ہیں کہ ہم گئے تھے، ہمیں پان بھی نصیب نہ ہوا، بھلا کون اِن سے پوچھے کہ یہ وقت تمہارے ناز نخرے پورے کرنے کا تھا یا اِس بے چاری پر مصیبت کا وقت تھا، مگر اِن کی بلا سے ۔اِن کے ناز نخرے کسی وقت کم نہیں ہوتے حالانکہ اِس وقت یہ مناسب تھا کہ آنے والیاں اپنا دال آٹا (بلکہ اِس بے چاری کے لیے کھانا) ساتھ باندھ کر لاتیں اور گھر والوں سے کہہ دیتیں کہ اِس وقت تم ہماری فکر نہ کرو تم خود مصیبت میں مبتلا ہو، جب کبھی خوشی کا موقع ہوگا ہماری خاطر مدارت کرلینا۔ باقی اِس وقت تو ہم اپنا انتظام خود ہی کریں گے اور یہ تو بہت ہی سخت بے حیائی ہے کہ وہاں جاکر بھی اپنے سارے معمولات پورے کریں کہ نہ پان میں فرق آئے نہ چائے میں۔ (الکمال فی الدین ص ١١٢) ضرورت اور فضول خرچی کی حُدود : ایک محترمہ نے حضرت حکیم الامت تھانوی کی خدمت میں لکھا کہ حضرت اقدس ہمارے گھر میں کھانے پینے کی فراغت رہتی ہے۔ کئی عورتوں نے مجھ سے کہا کہ تم فضول خرچ ہو۔ حضرت اِرشاد فرمائیں کہ کس حد سے آگے بڑھنا اِسراف کہلاتا ہے جس سے انسان فضول خرچ بن جاتا ہے ؟ حضرت نے اِرشاد فرمایا : ''جزئیات کو تو صاحب ِمعاملہ ہی سمجھ سکتا ہے مگر اُصولی طور پر اِتنا کہا جاسکتا ہے کہ شروع