ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
میں ضروری خرچ پر اکتفا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اب سمجھنا چاہیے کہ ضروری کسے کہتے ہیں؟ سو ضروری کا مطلب یہ ہے کہ اگر موقع پر خرچ نہ کریں تو کوئی نقصان لاحق ہو مثلاً کوئی تکلیف ہونے لگے جیسے کپڑے کی کمی سے سردی کی تکلیف یا موٹا کپڑا پہننے سے گرمی کی تکلیف ہو یا اَبھی نہ ہو مگر آئندہ تکلیف ہو۔ یہ تو ضرورت کا ابتدائی درجہ ہے اِس کی عادت ڈالنا چاہیے۔ (مکتوبات ِاشرفیہ بحوالہ نیک خاوند نیک بیوی ص ١٢٠) ضرورت کی تفصیل : الغرض تمام اَخراجات اور سامانوں میں اختصار کرو یعنی قدرِ ضرورت پر اکتفاء کرو۔ پھر ضرورت کے بھی درجے ہیں۔ ایک یہ کہ جس کے بغیر کام نہ چل سکے، یہ مباح بلکہ واجب ہے۔ دُوسرے یہ کہ ایک چیز کے بغیر کام تو چل سکتا ہے مگر اِس کے ہونے سے راحت ملتی ہے اگر نہ ہو تو تکلیف ہوگی گو کام چل جائے گا مگر دِقت سے چلے گا۔ ایسے سامان رکھنے کی بھی اجازت ہے۔ تیسرے یہ کہ ایک سامان اِس قسم کا ہے کہ جس پر کوئی کام نہیں اَٹکتا ،نہ اِس کے بغیر تکلیف ہوگی مگر اِس کے ہونے سے اپنا دل خوش ہوگا تو اپنا جی خوش کرنے کے واسطے بھی کسی سامان کے رکھنے میں بشرطِ وسعت مضائقہ نہیں ہے یہ بھی جائز ہے۔ چوتھے یہ کہ دُوسروں کو دِکھانے اور اُن کی نظر میں بڑا بننے کے لیے کچھ سامان رکھا جائے، یہ حرام ہے۔ اور ضرورت و غیر ضرورت کے یہ درجے ہر چیز میں ہیں ،مکان میں بھی اور برتنوں میں بھی۔ ہر چیز کی ضرورت کا معیار یہ ہے کہ جس کے بغیر تکلیف ہو ضروری ہے اور جس کے بغیر تکلیف نہ ہو وہ غیر ضروری ہے۔ اب اگر اِس میں اپنا جی خوش کرنے کی نیت ہو تو مباح ہے اور اگر دُوسروں کی نظر میں بڑا بننے کی نیت ہو تو حرام ہے۔ اس معیار کے موافق عمل کرنا چاہیے۔ (التبلیغ ٤ / ١٦٧) فضول خرچی کی حد : اِسراف (فضول خرچی) اِس کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی مصلحت (فائدہ) نہ ہو۔ کھانے پینے میں وسعت کرنا بشرطیکہ کسی حد ِشرعی سے تجاوز لازم نہ آئے اِسراف میں داخل نہیں اور سامان خریدنے کے متعلق کہتا ہوں کہ جب کوئی چیز خریدنا چاہو تو پہلے سوچ لو کہ اِس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اگر فورًا ضرورت ذہن میں آجائے تو خریدلو۔ اگر فورًا ضرورت ذہن میں نہ آئے تو نہ خریدو کیونکہ جس ضرورت کو آدھ گھنٹہ تک سوچ سوچ