ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
رضی اللہ عنہ کا طریقہ اِختیار فرماتے تھے۔ عباسی صاحب مسائل سے واقف نہ تھے اور تاریخ کے مطالعہ کے باوجود قطع و برید کے عادی ہیں ورنہ وہ ایسی باتیں نہ لکھتے۔ جب حضرت طلحہ و و زبیر رضی اللہ عنہما نے بصرہ فتح کیا اور بیت المال میں داخل ہوئے تو اِنہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کو مال عنایت فرمایا تھا۔ مسائل سے جاہل کو خبر نہیں ہوتی کہ ِاس نے کیا لکھ دیا ہے ،خصوصًا اگر گمراہ بھی ہو۔ عباسی نے اِزالة الخفاء کا ایک اور حوالہ دیا ہے : ہر روز دائرہ سلطنت تنگ تر می شد تا آنکہ در آخر ایام بجز کوفہ و ماحولِ آں محل ِحکومت نماند۔ (خلافت ِ معاویہ ص ٥٦) ہر روز اِن کی سلطنت کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آخر ایام میں سوائے کوفہ اور اِس کے آس پاس اِن کی حکومت کا ٹھکانا نہ رہا۔ یہ بات شیعوں کے مقابل گفتگو کی قسم سے ہے ورنہ اُن دنوں صورتِ حال یہ تھی کہ حجاز اور یمن میں اَفواج برائے نام تھیں۔ حضرت معاویہ کی طرف سے بسر بن ارطاة ایک چھوٹا لشکر لے کر یمن گیا۔ وہاں حضرت علی کے طرف داروں کا خون خرابہ کیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دو پوتوں کو جو بہت چھوٹے چھوٹے بچے تھے ماردیا۔ پھر حجاز کی طرف رُخ کیا، مکہ مکرمہ پہنچا۔ اُنہوں نے ایک دستہ اور روانہ کیا جو بصرہ پہنچ گیا، وہاں قبضہ کرلیا۔ حضرت معاویہ نے یہ دو کارروائیاں کیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا۔ اِنہوں نے بصرہ پر حضرت معاویہ کے آدمیوں کو جو قابض تھے مار بھگایا، جو نہ بھاگے اُنہیں مارڈالا۔ پھر وہ بُسر کے پیچھے روانہ ہوئے، بُسر حرمین سے جاچکے تھے۔ وہاں اور یمن کے علاقہ پر بھی قبضہ حضرت علی ہی کا رہا تھا۔ جاریہ ابھی حرمین ہی میں تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی۔ پھر جب لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ہی خلیفہ مان لیا تو آپ نے لشکر جمع کیا اور حضرت معاویہ پر فوج کشی کے لیے روانہ ہوئے۔ بخاری شریف میں حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے :