ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
نے جن کی تعداد چار سو کے لگ بھگ تھی اور یہ سب قاری تھے، حضرت علی سے عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین باوصف اِس کے کہ ہم آپ کی فضیلت کے قائل ہیں، ہمارے نزدیک اِس جنگ کا معاملہ مشکوک ہے۔ آخر آپ کو اور دیگر مسلمانوں کو اِن لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو مشرکین کے خلاف نبرد آزما ہوں، لہٰذا آپ ہمیں مشرکین کی کسی سرحد پر متعین کردیں کہ ہم وہاں کے ساکنوں کے خلاف صف آراء ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اِنہیں قَزْوِیْن اور رَی کی سرحد پر متعین کرکے ربیع بن خُثیم کو اِن کا امیر مقرر کیا اور ایک جھنڈا اِن کے سپرد کردیا۔ یہ پہلا جھنڈا ہے جو کوفے میں کسی کے سپرد کیا گیا۔(الاخبار الطوال للدینوری ص ٣١٢) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خُلید کو خراسان بھیجا وہ روانہ ہوگئے حتّٰی کہ جب وہ نیشاپور کے قریب پہنچے تو اِنہیں خبر ملی کہ خراسان کے باشندے کافر ہوگئے اور اِطاعت سے پھرگئے ہیں اور اُن کے پاس کابل سے کسریٰ کے افسران و عہدہ داران آگئے ہیں۔ خُلَید نے اہل ِ نیشاپور سے جہاد کیا وہ شکست کھاکر بھاگ گئے۔ خُلید نے اہل ِنیشاپور کا محاصرہ کرلیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس فتح کی خوشخبری اور قیدی بھیجے، پھر (محل میں) کسریٰ کی بیٹیوں پر حملہ کا اِرادہ کیا۔ اُنہوں نے اَمان چاہی (یہ دو لڑکیاں تھیں) اِنہیں اَمان دے دی گئی۔ خُلید نے اِنہیں بغیر قیدی بنائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، آپ نے اِنہیں اختیار دیا کہ جہاں قیام کرنا پسند کریں وہاں ٹھہریں۔ اِنہیں ٹھہرانے کی ذمہ داری نرسا نے لی، وہ اِس کے یہاں قیام پذیر ہوگئیں۔ (وقعة صفین ص ١٥) چونکہ عباسی صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رابع نہیں ماننا چاہتے، اپنی تحریرات میں ابن ِ تیمیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریرات کی آمیزش کرکے اپنے مدعٰی کی طرف ذہن لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اِن کا خلیفہ برحق ہونا ابن ِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دونوں ہی تسلیم کرتے ہیں۔ اُمت کے ائمہ عظام امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور عقائد ِاہل ِسنت کے دونوں طبقے ماتریدیہ اور اَشاعرہ سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رابع اور اِن کے مخالف کو باغی مانتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو سلوک اپنے مد مقابل لوگوں سے کیا اِس سے سب ائمہ نے باغیوں کے اَحکام ترتیب دیے ہیں، وغیرہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پوری حدودِ اسلامیہ میں نافذ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ِ شام