ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
میں مزارِ اقدس پر حاضر ہوا ،رُوح ِپر فتوح علیہ السلام کو عظیم الشان تموج میں پایا اور میںنے مشاہدہ کیا کہ( آپ ۖ ) زائرین صلوةوسلام پڑھنے والوں کی طرف خصوصی تو جہ فرماتے ہیںاور سلام کا جواب دیتے ہیں۔ مواجہہ شریفہ میں دُرود شریف اور صلوةوسلام عرض کرنا فقہاء رحمہم اللہ نے آداب ِزیارت میں کھڑے ہو کرہی بتایا ہے۔ ٭ صلوة والسلام علی النبی ۖ تمام عمرمیں ایک مرتبہ فرض ہے۔حسب ِاِرشاد یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ تَسْلِیْمًا (الایة )جب کسی مجلس میں ذکر جناب سرور کائنات علیہ السلام آئے تو ایک مرتبہ واجب ہے کہ صلوةوالسلام زبان سے ادا کیا جائے ،بشرطیکہ نماز یا خطبہ میں نہ ہو ،حسب الارشاد مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ، وَمِثْلُہ مِنَ الرِّوَایَاتِ الْعَدِیْدَةِ،نماز میںبعد التحیات فی القعدة الاخرة سنت مؤکدہ ہے اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے ،دُوسرے اوقات میں مستحب ہے، بعض اوقات میں مکروہ اور بعض میں حرام ہے ۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں جو آیات وارد ہیں وہ قطعی ہیں جو احادیث صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں وہ اگر چہ ظنی ہیں ،مگر اُن کی اسانید اِس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات اِن کے سامنے ہیچ ہیں ،اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میں اور آیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہو گا تو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہے۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر چہ معصوم نہیں ہیں ،مگر جناب رسول اللہ ۖ کے فیض صحبت سے اُن کی روحانی اور قلبی اِس قدر اصلاح ہو گئی ہے اور ان کی نسبت باطنیہ اِس قدر قوی ہو گئی ہے کہ مابعد کے اولیاء اللہ سالہا سال کی ریاضتوں سے بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ ٭ معصوموں سے اگر چہ قصداً گناہ نہیں ہو سکتا، مگر غلطی فہمی سے بسااوقات اُن سے بڑے سے بڑا گناہ ہو جاتا ہے ،مگر یہ گناہ صورتاً ہی گناہ ہے حقیقتا گناہ نہیں ہے۔ ٭ مؤرخین میں سے اُن لوگوں کا قول کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ ٔحیات میں یزید معلن بالفسق تھا ،اور اُس کو اِس کی خبر تھی اور پھر اُنہوں نے اِس کونامزد کیابالکل غلط ہے ،ہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اُس وقت میں خفیہ طور پر فسق فجور میں مبتلا ہو ،مگر اِن کو اُس کے فسق و فجور کی اطلا ع نہ ہو ۔