ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
٭ فرعون نے اِدراک غرق اور عذابِ الہٰی کے مشاہدے کے بعد ایمان کے کلمات کہے،وہ ایماندار عنداللہ اور عندالشرع نہیں ہوا،اور اُس کی توبہ مقبول نہیں ہوئی ،اِدراک ِغرق کا مرتبہ تو رؤیت ِعذابِ الہٰی اور رؤیت ِبأس خداوندی سے بعد کا ہے جب کہ رؤیت ہی سے ایمان کا نفع دینا ممنوع ہو جاتا ہے ،تو اِدراک ِعذاب سے بدرجہ اولیٰ ممنوع ہو گا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون اور فرعونیوں کے لیے بددُعا میں اِرشادفرمانا فلَا یُؤْمِنُوْاحَتّٰی یَرَوُالْعَذَابَ الْاَلِیْمَ خود اِس کے لیے شاہد عدل ہے ۔اگر ایسے وقت میں ایمان نافع ہوتا تو اِس بددُعاکے کوئی معنٰی نہیں تھے ،حالانکہ یہ دُعا مقبول ہوئی اور فرمایا گیا قَدْ اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا (تمہاری دُعا مقبول ہوئی )۔ ٭ چونکہ آنحضرت ۖ مدارج ِقرب ِمعرفت میں ہر وقت ترقی پذیر ہیں اِس لیے توجہ الی اللہ کا اِنہماک اور استغراق دُوسری جانب کی توجہ کو کمزور کردیتا ہے ،چنانچہ اہل ِاستغراق کی حالتیں روزانہ مشاہد ہوتی ہیں،مگر جب کہ رسول اللہ ۖ کو رحمتہ للعالمین بنایا گیا ہے،اِس لیے بارگاہ ِالوہیت سے دُرود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لیے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطا فرمائی گئی کہ خو د سرور کائنات علیہ السلام کو اصل استغراق سے منقطع کرکے دُرود والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ ۖ اُس کے لئے متوجہ ہو کردُعا فرماتے ہیں ۔ ٭ ایک جہان آپ ۖ کا شیدائی ہے ، کوئی دم ایسا نہ گزرتا ہو گا ،جو کوئی آپ ۖ پر سلا م نہ عرض کرتا ہو ،اِس صورت میں استغراق (اور تو جہ الی اللہ کا انہماک )برائے نام ہی رہا ۔بلکہ یوں کہو کہ درپردہ اِس کا انکار کرنا پڑا۔ یہ شبہہ ایسا ہے کہ اور مجیبوںکے جواب پر تو اِس کا زوال مشکل ہے،ہاں بطورِ احقر البتہ اِس کا جواب سہل ہے ۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ رُوح پر فتوح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جب منبع اور اصل اَرواح باقیہ خصوصاًاَرواح ِمؤمنین ٹھہری تو جون سا اُمتی آپ ۖ پر سلام عرض کرے گا ،اُس کی طرف کا شعبہ لوٹے گا ارتداد ِجملہ شعب لازم نہیں ،اور ظاہر ہے اِس شعبہ کا اِرتداد باعث اطلاع ِسلام معلوم تو ہو گا پر موجب ِزوالِ استغراق مطلق نہ ہو گا ۔ ٭ ملائیکہ سیاحین کی روایت فقط ابن ِحبان ہی کی نہیں، صحاح میںبھی متعدد طرق سے موجود ہے ۔ ٭ حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ فیوض الحرمین میں فرماتے ہیںکہ میں جب بھی مواجہہ شریفہ