ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
کے شر سے نجات دلوائے؟ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے حامی بھرلی اور عرض کیا اِس کوشش میں اگر کوئی بات بے ادبی اور بظاہر ایمان کے خلاف ہو تو جائز ہوگی؟ فرمایا تمہیں اجازت ہے۔ چنانچہ منصوبہ بنایا گیا، ابونائلہ جو کعب بن اشرف کے دودھ شریک بھائی تھے اور حضرت عباد بن بشر اور حضرت ابوعبس بن جبیر کو اِس میں شریک کیا گیا۔ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کعب کے پاس گئے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئی، ایک دوسرے کو اپنے اپنے اشعار بنائے۔ جب اعتماد کی فضا بن گئی تو کہا میں ایک ضرورت سے آیا ہوں اگر رازاری کا عہد کرو تو بیان کروں، اُس نے جواب دیا کیا تم اپنے بھائی پر بھی اعتماد نہ کروگے؟ فرمایا اِس شخص (رسول اللہ ۖ ) نے ہم سے صدقہ طلب کیا ہے جو ہمارے لیے مشقت کا باعث ہے، ہم پر احسان کرو کچھ غلہ، کھانے پینے کی چیزیں ہمیں دو ،ہم اِس کے بدلے کچھ نہ کچھ رہن رکھیں گے۔ پوچھا کیا اپنی بیویوں کو گروی رکھوگے؟ نہیں اِس میں بڑی رُسوائی ہوگی، چلو بچوں کو رہن رکھ دو، یہ بات بھی ذلت کا باعث ہوگی، تم احسان سے کام لو، اگر رہن ہی رکھنا ہے تو ہمارے ہتھیار رکھ لو اِس سے غلہ کی قیمت بھی ادا ہوجائے گی۔کعب نے رضا مندی ظاہر کی۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا ہتھیار سجالو، پھر سب مل کر حضور اقدس ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیںبقیع الغرقد تک چھوڑدیا اور فرمایا اللہ کے نام پر اُس کی مدد کے بھروسے چلے جائو، وہ سب کعب کے قلعہ پر پہنچے اور محمد بن مسلمہ نے آواز دی ۔ہرچند اُس کی نئی دُلہن روکتی رہی لیکن وہ تو رسول اللہ ۖ کی دشمنی میں اندھا ہوا جارہا تھا کہا جواں مرد تو وہ ہے جب رات میں بھی اُس کو نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو دیر نہ کرے۔ اُس کے آنے کے بعد دونوں کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے اور کہا ہوائوں میں کس قدر خوشبو مہک رہی ہے؟ اے ابن ِاشرف یہ اِس تیل کی مہک ہے جو تم نے سر میں لگایا ہے ،سر پکڑکر خوشبو کو سونگھنے لگا، وہ بڑا خوش ہوا ،یہ دیکھ کر اُس کے بال مضبوطی سے جکڑلیے اور آوازدی اِس دشمن خدا اور دشمن رسول ۖ کا کام تمام کردو۔ ہر طرف سے تلواریں پڑنے لگیں، حضرت محمد بن مسلمہ نے اپنا چھوٹا خنجر اُس کی ناف میں گھونپ دیا اور اُس نے زور کی چیخ ماری۔ جلدی سے آپ نے اِس لعین کا سر کاٹا اور حضور ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بقیع غرقد کے قریب پہنچے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ لگایا۔ آواز حضور ۖ تک پہنچی تو سمجھ گئے کہ کام تمام ہوگیا۔ آپ ۖ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی۔ صبح یہودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اِس قتل پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ اِرشاد ہوا تم کعب