ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
شدید ضرورت کے وقت جب کہ زوجین کے مابین ایسی دُوری اورنفرت ہو گئی ہو کہ نباہ کی کوئی صورت نہ ہو اورخطرہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم رہ کر ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرسکیں گے ،ایسی مجبوری کی صورت میں طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے ورنہ نہیں ۔ (فتح القدیر ج٣ ) حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ طلاق دینا عورت کو اذیت اورتکلیف میں مبتلا کرنا ہے اورکسی کو تکلیف دینا اُس کی جنایت یا شرعی تکلیف کے بغیر دُرست نہیں۔ اس لیے طلاق دینے کی اُسی وقت اجازت ہو سکتی ہے جب کہ ناحق اورباطل کے ساتھ عورت کو تکلیف دینا نہ ہو ۔ (احیاء العلوم ج٢ ص٥٧) طلاق نہ دینے کی ترغیب اورعورتوں کی کج رَوی پر صبر کی تلقین : طلاق چونکہ باہمی اختلاف وتفریق کا ذریعہ ہے اِس لیے شریعت نے اِس کو ناپسند اورمذموم قراردیا ہے اورحتی الامکان باہمی نباہ اورحُسنِ معاشرت کی نہ صرف ترغیب بلکہ تاکیدی انداز میں ہدایت فرمائی ہے ، ایک مقام پر حق تعالیٰ کا فرمان ہے : '' وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ '' '' اوراِن عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ گزر بسر کیا کرو''۔ اس آیت میں مردوں کو اپنی عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا مطلقاً حکم دیا گیا ہے کہ ہر حال میں اُن کے ساتھ اچھا برتائو کرو ،خواہ حسن وجمال والی اورتمہاری من پسند ہوں یا اِس کے خلاف ہوں۔ مال اورفضل وکمال والی ہوں یا غریب اور معمولی گھرانہ کی ہوں ۔ جہیز لے کر آئی ہوں یا نہ آئی ہوں۔ اولاد ہوتی ہویا نہ ہوتی ہو، خوش مزاج بااخلاق تمہاری مزاج شناس ہوں یااِس پہلو سے اُن میں کچھ کمی پائی جاتی ہو لیکن مردوں کو اللہ نے اِن کا بڑا بنایا ہے اوراِسی بڑائی کے اعتبارسے اُن کو حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر حال میں اِن کے ساتھ اچھا برتائو اورخیر خواہی کا معاملہ کرو، اورآگے ارشاد فرمایا : '' فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ''۔ ''اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شیٔ کو ناپسند کرو اوراللہ تعالیٰ اُس کے اندر کوئی بڑی بھلائی رکھ دے'' ۔