ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
اوراگر مضطر کسی ایسے شخص کی لاش پائے جس کو قتل کرنا حرام ہوتو ہمارے اصحاب کے نزدیک مضطر کیلیے اِس کا گوشت کھانا جائز نہیں جبکہ امام شافعی اوربعض حنفیہ کہتے ہیں کہ اِسکاگوشت کھانا بھی جائز ہے اوریہی قول اولیٰ ہے کیونکہ زندہ مضطر کا احترام مردہ سے زیادہ ہے''۔ جوشخص بھوک سے مضطر ہو اور مرنے کے قریب ہو جان بچانے کے لیے جب اُس کو مردہ آدمی کا گوشت کھانے کی اجازت ہے تو گردے یا دل یا جگر کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے جو مرنے کے قریب ہو اُس کے لیے مردہ آدمی کے اعضاء کا استعمال بھی جائز ہوگا۔ زندہ آدمی کے اعضاء لینے کی اجازت نہیں : وان لم یجد الا آدمیا محقون الدم لم یبح لہ قتلہ بالاجماع ولا اتلاف عضومنہ مسلما کان اوکافرا لانہ مثلة ۔ (المغنی ص ٨٠ ج١١) '' اور اگر مضطر کسی ایسے زندہ شخص کوپائے مثلاً مسلمان کو یا ذمی کو جس کی جان کو احترام حاصل ہے تو مضطر بالاتفاق اُس کو قتل نہیں کرسکتا اوراُس کے کسی عضو کو تلف بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مثلہ ہے''۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حالت ِاضطرار میں بھی اِن حضرات کے نزدیک کسی زندہ کا عضو لینا جائز نہیں جبکہ دوسرے فقہاء نہ زندہ نہ مردہ کسی کا بھی عضو لینے کو جائز نہیں کہتے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ کسی زندہ کا عضو لینے کی حرمت پر تمام فقہاء کا اتفاق و اجماع ہے۔ اگرچہ جواز اور عدم جواز دونوں کا قول مضطر کے بارے میں ہے لیکن اس قول کو لینے والے فقہاء کے مذکورہ بالا مسائل کو مندرجہ ذیل وجوہ سے ترجیح دیتے ہیں : (i) انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا خاصا رواج ہو گیا ہے جس سے تحقق میں عرب وعجم کے بعض علماء کے فتوئوں کو دخل ہے اگرچہ وہ بذاتِ خود حجت نہیں اوراُن کے دلائل بھی بے وزن ہیں۔