ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
دوسری تدبیریں اختیار کرو ۔وہ کیا؟ سب وشتم نہیں سخت مار پیٹ نہیں طلاق کی دھمکی نہیں بلکہ و ہی مصالحت ومفاہمت یعنی غلط فہمیوں کا ازالہ اور جانبین سے پورے طورپر حقوق کی ادائیگی کا معاہدہ ۔ لیکن اب یہ کام خود نہیں کرنا کیونکہ معاملہ اِس حد کو پہنچ چکا ہے کہ غصہ و گرمی میں بجائے نفع کے نقصان کا خطرہ ہوسکتاہے اس لیے اب حکم یہ ہے۔ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْاحَکَمًا مِّنْ اَھْلِہ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَا اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا۔(پارہ ٥ ، سورہ نساء ) '' اوراگرتمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کا علم ہوتو تم ایک حَکَم مرد کے خاندان سے اور ایک حَکَم عورت کے خاندان سے مقرر کردو، اگردونوں کی نیت اصلاحِ حال کی ہوگی تواللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا ''۔ اس ہدایت ورہنمائی کا حاصل یہی ہے کہ ایسی نازک صورتحال میں خاندان کے دوبڑے سمجھدار حضرات ایک مرد کی طرف سے دوسرا عورت کی طرف سے، دونوں حضرات جو مسئلہ کی صحیح صورت حال سے بھی واقف ہوں وہ شرعی حکم کے تحت خیر خواہی کے جذبہ سے شوہر بیوی کے درمیان صلح وصفائی اورباہم اتحاد واتفاق اورمصالحت ومفاہمت کی کوشش کریں۔ اللہ کا وعدہ ہے: '' اِنْ یُّرِیْدَااِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا '' اگر واقعی خیر خواہی کے جذبہ سے یہ اقدام کریںگے ، تو ان شاء اللہ یقینا موافقت کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ مجبوری کی صورت میں طلاق کا اقدام اوراُس کا دستورالعمل : لیکن شوہر بیوی کی باہم کشیدگی اورآپسی منافرت اِس درجہ بڑھ چکی ہو کہ مصالحت وموافقت کی مذکورہ بالا تدبیروں میں ساری ہی تدبیر یں بے سود ہو جائیں اوراب صورتحال ایسی بن چکی ہو کہ شوہر بیوی میں ایک دوسرے کے حقوق کی طرف سے لاپرواہی ہونے لگے ، نہ شوہر کوبیوی سے سکون حاصل ہو اور نہ عورت شوہر کی ماتحتی قبول کرے، بلکہ حق تلفی اورظلم وزیادتی اوردست درازی کے خطرات ہوں ایسی صورت میں شریعت کہتی ہے کہ خبردار ظلم زیادتی کا دروازہ مت کھولنا ، حسن ِمعاشرت کے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا تو ظلم ومعصیت میں مبتلاء نہ ہوکر حسن ِانداز سے شریعت کے مطابق طلاق دے کر اِس سے علیحدگی اختیار کرلو ۔اور ایسے موقع پر طلاق نہ دینا اورظلم کے لیے