ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
اولاد کی اہمیت اوراُس کے فضائل ( حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) جو اولاد مرجائے اُس کا مرجانا ہی بہتر تھا : حضرت خضر اورموسیٰ علیہم السلام کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے ایک بچہ کو قتل کردیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے یہ کیا کیا کہ ایک بے گناہ بچہ کو مار ڈالا؟ اور خضر علیہ السلام نے پہلے ہی موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہ شرط کرلی تھی کہ میرے کسی فعل پر اعتراض نہ کرنا اس لیے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم سے صبر نہ ہو سکے گا۔ اِس کے بعد اس واقعہ کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ اس لڑکے کے والدین مومن ہیں اوریہ لڑکا بڑا ہو کر کافر ہوتا۔ اوراس کی محبت میں اس کے ماں باپ بھی کافر ہو جاتے ،اس لیے ارادہ الٰہی یہ ہوا کہ اس کا پہلے ہی خاتمہ کردیا جائے اوراِس کے بدلہ نیک اولاد اُن کوملے۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جو بچے بچپن میں مرجاتے ہیں اُن کا مرجانا ہی بہتر ہوتا ہے ۔اس واسطے جو دیندار ہیں اُن کو اولاد کے مرجانے کاغم توہوتا ہے لیکن پریشان نہیں ہوتے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کو حکیم سمجھے گا وہ کسی واقعہ سے پریشان نہ ہوگا ۔ہا ں جس کی اِس پر نظر نہیں اُس پر اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے مثلاً کوئی بچہ مرجاتا ہے تو اُس کو بڑا اُتار چڑھائو ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہتا تو ایسا ہوتا،دل کے اندر سے شعلے اُٹھتے ہیں ۔ارمان ہوتے ہیں حسرتیں ہوتی ہیں کہ ہائے ایسی لیاقت کا تھا ایسا تھا ویسا تھا۔صاحبو ! تم کو کیا خبر کہ وہ کیسا تھا غنیمت سمجھو اِسی میں مصلحت تھی ممکن ہے کہ بڑا ہوکر کافر ہوتا اورتم کو بھی کافربنا دیتا ۔( الدنیا ملحقہ دُنیاوآخرت ص٩٩) چھوٹے بچوں کی موت ہوجانے کی حکمتیں : چھوٹے بچوں کی موت میں ایک بڑی حکمت ہے اگر وہ پیش نظر رہے تو چھوٹے بچوں کے مرنے پر غم کے ساتھ خوشی کا بھی ایک پہلو سامنے ہوگا۔ لوگوں کو اولاد کے بڑے ہونے کی خوشی محض اس لیے ہے کہ اُن کا نفس یوں ہی چاہتا ہے ورنہ اُن کو کیا خبر