ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
فرماتے ہیں کیا تم نے میرے بندہ کے جگرگوشہ کو لے لیا؟وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں ،پھر فرماتے ہیں کہ میرے بندہ نے کیا کہا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اُس نے آپ کی حمد کی (یعنی آپ کا شکر ادا کیا )اورصبرکیا۔ اِس پر حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گواہ رہو ،میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا اوراس کے لیے جنت میں ایک محل تیارکرواور اس کانام ''بیت الحمد ''رکھو۔ یہ تو چھوٹوں کے مرنے پر وعدہ ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ بچوں کے مرنے پر نعم البدل (یعنی اچھا بدلہ )عطا فرماتے ہیں یعنی مغفرت اورجنت کا محل۔ (الجبر بالصبر ملحقہ فضائل صبروشکر ص٣٣٣) بڑی اولاد کے مرجانے کی فضیلت : اور بڑوں کے مرجانے پر بھی اسی طرح اجروثواب کا وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے حق تعالیٰ فرماتے ہیں من اخذت صفیة (ای حبیبہ ) یکن لہ ثواب الاالجنة اوکماقال ۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں جس شخص کے محبوب اورپیارے کو لے لوں جوعام ہے خواہ وہ محبوب چھوٹا ہو یا بڑا (بھائی ہو یا بیوی)تواُس کا اجر جنت کے سوا کچھ نہیں یعنی وہ جنت میں ضرور پہنچے گا ۔ یہاں بھی نعم البدل کا وعدہ ہے اورجنت سے بہتر نعم البدل اورکیا ہوگا۔ اِسی مضمون کو ایک بدوی (دیہاتی)نے بہت خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جب حضرت عباس کا انتقال ہوا اورحضرت عبداللہ بن عباس کو بہت صدمہ ہوا تو بدوی نے آکر اشعار میں اُن کو تسلی دی ۔ اشعار تواہل ِعرب کی گھٹی میں ہیں، بچہ بچہ یہاں تک کہ عورتیں بھی عرب میںشاعر ہوئی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مجھے اِس بدوی(دیہاتی شخص) سے بہتر کسی نے تسلی نہیں دی ۔ چنانچہ کہتا ہے اصبرتکن بک صابرین فانما صبراک رعیة بعد صبرالراس ترجمہ : اے ابن عباس آپ صبر کیجیے تاکہ ہم بھی آپ کی وجہ سے صابربنیں ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ مقتداء ہیں، آپ کے افعال کی سب اتباع کرتے ہیں پس ایسے حوادث میں آپ صابر رہیں گے توہم بھی مصیبت کے وقت میں صابر رہا کریں گے ۔اگر آپ نے صبرنہ کیا تو عوام بھی صبرنہ کریں گے