ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
سے توڑ پیدا ہوتا ہو، اللہ کے رسول کو ۖ اُن چیزوں سے نفرت اورناراضگی ہوتی ہے کیونکہ آپ دُنیا میں توڑپیدا کرنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ شیطان کا کام جوڑ کو ختم کرنااور توڑ کوپیدا کرنا ہے ۔ اس کی برابر کوشش یہی رہتی ہے کہ کب اور کس طرح دو فرد ،دو گھر ، دوخاندان اور دوجماعتوں میں توڑ اوراختلاف پیدا کرادے ، اور اختلاف وتوڑ سے وہ جس قدر خوش ہوتا ہے کسی اور چیز سے نہیں ہوتا ۔نکاح سے چونکہ جوڑ پیدا ہوتا ہے اورطلاق کی حقیقت نکاح سے حاصل ہونے والے جوڑ کوختم کرنا اوراپنے آپ کو بے شمار حق تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم کرنا ہے، اس لیے نکاح کی بابت رسول اللہ ۖ نے فرمایا : '' اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ ''کہ نکاح میری سنت ہے اورطلاق کے متعلق فرمایا '' اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلیَ اللّٰہِ الطَّلَاقُ '' (مشکٰوة شریف) کہ حلال اورجائز اُمور میںسب سے بُری اورنفرت کے قابل چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے ۔اور آپ ۖنے فرمایا کہ شیطان جتنا زیادہ طلاق سے خوش ہوتا ہے دوسری چیزوں سے نہیں ہوتا۔ ایک حدیث پاک میں رسول اللہ ۖنے شدید ضرورت اورمجبوری کے بغیر طلاق دینے والے مرد پر لعنت فرمائی ہے، نیز ایسی عورت جو بغیر مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اُس پر بھی اللہ کے رسول ۖ نے اللہ فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت فرمائی ہے ، نیز فرمایا کہ ایسی عورت پر جنت حرام ہے ۔ علامہ ابن ھمام فرماتے ہیں کہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی یا طلاق دینے والے مرد پر جو اتنی سخت وعید اورلعنت آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح تو حق تعالیٰ کی بڑی نعمت اور اللہ کی بڑی قدرت اور نشانی ہے ،اللہ نے جو اس کو نعمت عطا فرمائی ہے اُس نعمت کی یہ ناقدری اورناشکری کرتا ہے اورخدا کی دی ہوئی نعمت کو ٹھکرا کر اپنے کو اِس نعمت سے محروم کرتا ہے۔اِس کفران ِنعمت کی سزا میں ایسا شخص مستحق ِلعنت اورمستحق ِوعید ہوتا ہے، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ (فتح القدیر ج٣ ۔ احیاء العلوم ص٥٢ ج٢) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا : '' تزوجوا ولا تطلقوافان الطلاق یھتزمنہ عرش الرحمن '' یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو ،کیونکہ طلاق سے عرش ِرحمن ہِل جاتا ہے۔( قرطبی بحوالہ معارف القرآن ) اسی لیے فقہاء اسلام نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ طلاق دینے میں اصل تو حظر یعنی ممانعت ہے ۔