ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
ستعمال ہے ورنہ اگر زینت اورتحسین اِس کی وجہ ہوتی تو مصنوعی بال یا جانوروں کے بال لگانے میں بھی لعنت ہوتی جو کہ نہیں ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے یہ حضرات کہتے ہیں کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری بالکل ناجائز ہے اور اضطرار کی حالت میں بھی جائز نہیں۔ جواز کا قول کرنے والوں کے اقوال اوردلائل اوراُن کے جواب 1۔ زندہ ومردہ کے اعضاء لینے کا جواز : جو لوگ زندہ مردہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے قائل ہیں اُن کے پا س اِس کے جواز کی صرف ایک دلیل ہے یعنی مصالح مرسلہ میں سے ہونا یعنی ایسے کام جن میں جان یا مال یا دین یا عقل یا نسل کی حفاظت کا فائدہ ہو اورخاص اُن کاموں کے خلاف کوئی شرعی نص موجود نہ ہو، وہ جائز ہوتے ہیں ۔موضوع سے مناسبت رکھنے والی جو چند مثالیں یہ لوگ پیش کرتے ہیں ،وہ یہ ہیں : (i) جنگ میں اگر کافر مسلمان قیدیوں کو اپنی ڈھال کے طورپر اپنے سامنے کرلیں تاکہ مسلمان فوج اپنے مسلمانوں کے مرنے کے خوف سے حملہ کرنے سے باز رہیںاورخود کافر آزادی سے مسلمانوں پر حملہ کرکے اُن پر غلبہ حاصل کرلیں ۔اِس صورت میں مسلمان فوج یہ دیکھ کر کہ کافر غلبہ پالیں گے تو تمام مسلمانوں کی جان ومال اوردین کا نقصان ہوگا اورتقریباً یقینی ہے کہ فتح کے بعد کافر اِن مسلمان قیدیوں کو بھی قتل کردیں گے تو ایسی صورتحال میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے مفاد کی خاطر وہ اِن تھوڑے سے مسلمان قیدیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کافروں پر حملہ جاری رکھے اوربیچ میں مسلمان قیدیوں کے قتل ہونے کی پروا نہ کرے۔ (ii) جنین کی اتنی عمر ہو چکی ہے کہ وہ زندہ رہ سکتا ہے۔اُس وقت اگر حاملہ مرجائے اور جنین زندہ ہوتو حاملہ کے پیٹ کوچاک کرکے جنین کو نکال لیں گے۔ (iii) ایک شخص دوسرے کی سونے کی ڈلی یا قیمتی ہیرا نگل گیا ۔ اگر اُس کے ترکہ میں اتنا مال نہیں ہے