ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
سبحان اللہ ! کیسے اچھے عنوان سے صبر کی ترغیب دی۔ آگے کہتا ہے : خیر من العباس اجرک بعدہ واللّٰہ خیر منک للعباس آپ کے لیے حضرت عباس کے زندہ رہنے سے وہ اجر بہتر ہے جو ان کے وصال پرآپ کوملا ۔ کیونکہ حضرت عباس اگرزندہ رہتے توبہت سے بہت آپ کو ملتے ۔ اورآپ کے لیے ثواب اُن سے بہتر ہے کیونکہ ثواب کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ کی رضامندی ۔تو یوں کہیے کہ حضرت عباس کے وصال پر صبرکرنے سے خدا آپ کو ملا اوریقینا خدا تعالیٰ سب سے بہتر ہے ۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے خدا آپ سے بہتر ہے کیونکہ وہ مرکر خدا کے پاس پہنچ گئے اگر نہ مرتے تو دُنیا میں رہتے جس میں رویت الٰہی (یعنی اللہ کا دیدار )نہیں ہو سکتا ۔ (الجبربالصبر ملحقہ فضائل صبروشکر ص٣٣٤) صبروتسلی کا ایک اورمضمون : مرنے والے کے متعلق یہ سوچے کہ اگر وہ اس وقت نہ مرتابلکہ زیادہ دن تک بیماررہ کر صاحبِ فراش بن کر(یعنی بستر پکڑکر )مرتا تو شاید مبغوض ہوکر مرتا ،کہ شاید رشتہ دار بھی گھبراجاتے اوراس میں بھی اِس کا نقصان تھا کیونکہ تم اُس کو اِس حالت میں یاد نہ کرتے اورثواب بھی نہ پہنچاتے ۔ کیونکہ ثواب اُسی کو پہنچاتے ہیں جس کے مرنے کا صدمہ ہوتا ہے اورجس کے مرنے پر خوشی ہو کہ اچھا ہوا پاپ کٹا اُس کو بہت کم یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح تمہارا بھی نفع اِسی میں ہے کہ اپناعزیز محبوب حالت میں مرے (یعنی تمہاری نگاہ میں محبوب ہو) کیونکہ کہ تم اُس کو یاد کرتے ہو تووہ بھی تمہارے واسطے دعاء کرتا ہے ۔ پس تم کو اس سے نفع پہنچتا ہے اوراس کو تم سے نفع پہنچتا ہے۔ (الجبر بالصبر ملحقہ فضائل صبروشکر ص٣٣٥) حضرت اُم سلیم کا واقعہ اورصبروتسلی کا مضمون : حضرت اُمِ سلیم کا قصہ حدیث میں اِس طرح آیا ہے کہ اِن کا ایک بچہ بیمار تھا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (اِن کے شوہر )باہر سے آکر اُن کا حال دریافت کیا کرتے تھے ۔ ایک دن اُس کا انتقال ہو گیا اورشام کو حضرت طلحہ آئے تو حضرت اُمِ سلیم نے اُن پر ظاہر نہیں کیا کہ بچہ کا انتقال ہو گیا تاکہ سن کرپریشان نہ ہوں اورپریشانی میں کھانا