ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
مضمون کو صبر حاصل کرنے میں بہت بڑادخل ہے۔ یہی وہ مضمون ہے جس کی وجہ سے حضرت اُم ِسلیم صحابیہ نے کامل صبر فرمایا اوراپنے شوہر کوبھی صابربنایا۔( الاجر النبیل ملحقہ فضائل ِصبر و شکر ص٦٣٥،٦٣٦،٦٣٧) چھوٹی اولاد کے مرجانے کے فضائل : حدیث میں آتا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس شخص کے تین بچے مرگئے ہوں وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گے ۔ کسی نے عرض کیا یارسول اللہ! کسی کے دوبچے مرے ہوں ؟ فرمایا وہ بھی ۔ پھر کسی نے عرض کیا یارسول اللہ! جس کا ایک ہی بچہ مرا ہو؟ فرمایا وہ بھی ۔ پھر کسی نے عرض کیا یارسول اللہ ! جس کا ایک بھی بچہ نہ مرا ہوتو آپ نے فرمایا انافرط لا متی ولن یصابوابمثلکہ میں اپنی اُمت کا آگے جاکر سامان کرنے والا ہوں ۔ اورمیری موت جیسا حادثہ میری اُمت پر کوئی نہ آئے گا ۔ اس لیے ان کے واسطے میری وفات کا صدمہ ہی مغفرت کے لیے کافی ہے یعنی میںآگے جاکر اپنی اُمت کے لیے مغفرت کی کوشش وسفارش کروںگا۔ اس پر شاید کوئی یہ کہے کہ جیسے بے اولادوں کے لیے حضور ۖ کی وفات کافی ہے۔ ایسی ہی اولاد والوں کے لیے بھی کافی تھی۔ پھر اولاد کی شفاعت کی ضرورت کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کو زیادہ تسلی کے لیے اِس کی ضرورت تھی ۔دووجہ سے ۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ۖ تو ادب و خوف کے ساتھ شفاعت فرمائیں گے اوربچہ ضد کے ساتھ شفاعت کرے گا۔ یہ بچے جس طرح یہاں والدین (ماں باپ)سے ضد کرتے ہیںقیامت میں اللہ تعالیٰ سے بھی ضد اورنازونخرے کریں گے۔ چنانچہ احادیث میں آتاہے کہ بچہ جنت کے دروازے پرجاکر کھڑا ہو جائے گااس سے کہا جائے گا اندر جائو ۔کہے گا نہیں جاتے، پوچھیں گے کیوں؟کہے گا جب تک ہمارے ماں باپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے اُس وقت تک ہم جنت میں نہیں جاسکتے ۔ اس سے حق تعالیٰ فرمائیں گے ۔ ایھاالطفل الراغم ربہ ادخل ابویک الجنة ۔ اے اپنے پروردگار سے ضد کرنے والے بچے جااپنے ماں باپ کو بھی جنت میں لے جا۔ دُوسرے عقلاً (شفاعت کرنے والوں کی ) تعداد بڑھنے سے زیادہ قوت (وتسلی )ہوتی ہے اگرچہ حضور ۖ کو اِس کی ضرورت نہیں ۔آپ تنہا ہی کافی ہیں مگر طبعاً (فطری طورپر )عدد بڑھنے سے تسلی زیادہ ہوتی ہے۔(الجبر بالصبر ملحقہ فضائل صبروشکر ص٣٣١)