ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
تاخیرِ قبولیت کی حکمت : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بندوں کی ضرورتوں پر مامور ہیں۔ جب کافر دُعاء کرتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے جبرئیل ! اِس کی حاجت پوری کرو،میں اس کی دُعاء نہیں سننا چاہتا ہوں اورجب کوئی مؤمن دُعا ء کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جبرئیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں اِس کی حاجت روکے رکھو میں اِس کی پکار پسند کرتا ہوں ۔ (الدعاء ص٨٧، کنزل العمال ص ٥٣ج٢) فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ دعاء کی قبولیت میں تاخیر ہونا اُس کے ناراض ہونے کی علامت نہیں ۔ دُعاء پر اللہ تعالیٰ کا لبیک کہنا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب بندہ کہتا ہے یا رب یا رب تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: حاضرہوں میرے بندے ، مانگ ، دیا جائے گا۔ (ابن ِابی الدنیا ، کنز العمال ص٤٠) اوّلاً اپنے لیے دُعا ء کرنا : حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک ۖ جب کسی کے لیے دُعا ء کرتے تو اپنی ذات سے دُعا شروع کرتے (یعنی اوّلاً اپنے لیے دعا کرتے )۔پس ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہوا تو آپ ۖ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اورحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ۔ (ابن ِابی شیبہ ص ٢٢٠) حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک ۖ جب کسی کے لیے دُعا ء فرماتے تو اولاً اپنے لیے دُعاء فرماتے ۔ (طبرانی ص٤٠٨ج٤۔مشکٰوة ص١٩٦ج١) فائدہ : چنانچہ دُعاء کی یہی ترتیب ہے کہ اولاً اپنے حق میں مانگے جیسے : رَبِّ اغْفِرْلِیْ وِلَوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ۔ (سورہ ابراہیم آیة ٤١) اپنے لیے دعاء کی فضیلت : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ۖسے پوچھا گیا افضل ترین دُعا ء کون سی ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا : آدمی کی دُعاء اپنے لیے۔ (مطالب ِعالیہ ص٥١ج٣)