ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
1۔ عدم ِجواز کے دلائل جو شروع میں ذکر ہوئے۔ 2۔ بھو ک کاضطرار اول تو ویسے ہی نادر الوقع ہے پھر ایسی صورت کہ اضطرار کو دُور کرنے کے لیے انسان کے مردہ جسم کے علاوہ کوئی بھی حلال یا حرام شے نہ ملے انتہائی نادر ہے جبکہ اعضاء کی پیوند کاری کی ضرورت کثیر الوقوع اور دائمی ہے ۔ایک انتہائی نادر بات کو بنیاد بناکر بہت سے مردہ انسانون کے تمام اعضائے رئیسہ کے نکالنے کو جائز کہا جائے،یہ بات غیر معقول ہے۔ 3۔ ضرورت مندوں کی تعداد حاصل شدہ اعضاء سے زیادہ ہونے پر اِس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ جو لوگ اپنے اعضاء کی وصیت نہ کریں گے یا جولوگ اپنی میت کے اعضاء دینے پر راضی نہ ہوں گے تو دوسرے لوگ اُن کے طرزِ عمل کو برا سمجھیں گے حالانکہ ایک ایسے عمل نہ کرنے کوبرا سمجھنا جو زیادہ سے ز یادہ مستحب ہو ،بدعت اورناجائز ہے۔ 4۔ دماغی موت اورحقیقی موت کے درمیان فرق ہوتا ہے ۔ حقیقی موت اُس وقت کہلاتی ہے جب دل اپنی حرکت چھوڑ بیٹھے ۔ پیوندکاری کے لیے اعضاء عام طورپر حقیقی موت سے پہلے محض دماغی موت طاری ہونے پر نکالے جاتے ہیں ۔محدود جواز کے قول میں قوی اندیشہ ہے کہ اعضاء نکالنے والے جلد بازی کا مظاہرہ کریں اوردماغی موت پر ہی اعضاء نکالنے کی کوشش کریں حالانکہ دماغی موت کا فیصلہ کرنے میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ تنبیہ : اس مضمون سے اور انتقال خون کے مسئلہ سے ایک اُصولی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگرمریض کی جان کا خطرہ ہو یا سخت مجبوری ہو اور معطی کا کوئی جزو لینے سے اُس کی جسمانی ہیئت بدلتی اور بگڑتی نہ ہوتو اِس حد تک پیوند کاری کی گنجائش ہے مثلاً Needle Biopsy کے ذریعہ معطی کے جگر کے کچھ خلیے لے کرمریض کے جسم میں داخل کردیے جائیں جن میں پھر تقسیم درتقسیم کے عمل سے اضافہ ہو جائے ۔ اسی طرح Needle Biopsy کے ذریعہ ہڈی کا گودا Bone Marrow) ( حاصل کرکے مریض کے جسم میں داخل کرنا بھی جائز ہے ۔