ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
کہ بڑے ہوکر یہ کیسا ہوگا ۔ والدین کی راحت کا ذریعہ ہوگا یا وبالِ جان ہوگا۔ اورپھر اگر وہ بڑا ہوکر مرے تویہ خبر نہیں کہ وہ والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہوگا ۔ اوربچپن میں مرنے والے بچے بہت زیادہ کارآمد ہیں۔ اِن میں یہ احتمال ہی نہیں کہ وہ آخرت میں نامعلوم کس حال میںہوں گے ۔ کیونکہ غیرمکلف (بچے)یقینا مغفورلہ(بخشے بخشائے )ہیں اوروہ آخرت میں والدین کے بہت کام آئیں گے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچے جنت میں جانے سے پہلے آخرت میں بھی بچے ہی رہیں گے اوراُن کی عادتیں بھی بچوں کی ہوں گی (یعنی )وہی ضد کرنا اوراپنی بات پر اَڑجانا پیچھے پڑجانا ۔لیکن یہ حالت جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہوگی پھر جنت میں پہنچ کر باپ بیٹے سب برابر ایک قد کے ہو جائیں گے ۔ حدیث میںآیا ہے کہ یہ بچے اڑجائیں گے اور(اللہ تعالیٰ سے )کہیں گے کہ ہم جنت میں نہ جائیں گے جب تک ہمارے ماں باپ کو ہمارے حوالہ نہ کیا جائے ۔ہم تواُن کو اپنے ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے تو حق تعالیٰ فرمائیں گے ۔ ایھاالطفل المراغم ربہ ادخل ابویک ....... کہ اے ضدی بچے اپنے خداسے ضد کرنے والے ،جا اپنے والدین کو بھی جنت میں لے جا۔ اُس وقت یہ خوش خوش جنت میں اپنے ماںباپ کے ساتھ جائیں گے ۔ تویہ بے گناہ بچے اللہ سے خود ہی بخشش کے لیے ضد کریں گے۔ اوراگر بچہ بڑا ہوکر مرجائے تو حضرت خضرعلیہ السلام کا واقعہ یاد کرکے دل کو یہ سمجھالو کہ نہ معلوم اِس میں کیا حکمت ہوگی شاید اگر یہ اورزندہ رہتا تودین کوبگاڑ لیتا یا دُنیا میں وبالِ جان ہوتا۔ اس کے بعد احادیث میں مصائب وحوادث کی جوتفصیلی حکمتیں مذکور ہیں نیز اُن پر ثواب بتلایا گیا ،اُن کو پیش نظررکھیں، ان شاء اللہ غم بہت کم ہوجائے گا۔ بس حاصل یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے اورجس کو نہ دیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے ۔ اگر کسی کے بالکل ہی اولاد نہ ہو وہ یہ سمجھے کہ میرے لیے اِسی میں حکمت ہے ،نہ معلوم اولاد ہوتی تو کن کن مصیبتوں کا سامنا ہوتا۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے کرچھین لیں ۔اُس کے لیے اِسی میں مصلحت ہے ۔للہ مااخذومااعطیٰ کامطلب یہی ہے جو حدیث میں مصیبتوں کی تسلی کے لیے آیا ہے اوریہی مطلب انا للّٰہ و انا الیہ راجعون کا ہے ۔ اوراس میں (مذکورہ تدبیرو)اعتقاد کو صبر کے پیداکرنے میں بڑادخل ہے ۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون کے