ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
طرف لاچار ہو جائو )۔علاوہ ازیں وجوب توخود حکم ہے وہ علت یا جزو علت نہیں بن سکتا۔لہٰذا اضطرار کی حالت میں کھانے کی خاطر ہو یا علاج کرانے کی خاطر ہو،دونوں میں حرام مباح ہو جاتا ہے، البتہ کھانے میں وجوب ہونے کی وجہ سے اگرنہ کھائے گا تو گناہ گار ہو گا اورعلاج میں استحباب ہونے کی وجہ سے اگرحرام کا استعمال نہ کرے گاتو گناہ گار نہ ہوگا۔ 3۔ حرام کھانا توموت کے دفعیہ کا قطعی و یقینی سبب ہے جبکہ یہ معالجات ظنی سبب ہیں یقینی نہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ تداوی بالحرام یعنی حرام چیز کو بطور دوااستعمال کرنا مضطر اورغیر مضطر دونوں کے لیے جائز ہے۔ 4۔ اعضاء کی پیوند کاری تداوی بالحرام میں شامل نہیں کیونکہ پچھلے فقہاء نے تداوی بالحرام میں انسانی اعضاء کے استعمال کو شمار نہیں کیا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ پچھلے فقہاء کے دورمیں موجودہ دور کی پیوند کاری کا کوئی تصور موجود نہ تھا اورکسی شے کے ذکر نہ ہونے کو اس شے کا معدوم ہونا لازم نہیں ہوتا ۔ 5۔ دل یا گردوں کے ناکارہ ہونے کی صورت میں خود اضطرارثابت نہیں ہو جاتا بلکہ ایسے مریض بہت عرصہ تک زندہ رہتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ کہ مثلاً جب گردے اوردل مکمل طورپر ناکارہ ہوجائیں اورمریض کو اُس کے حال پر چھوڑدیا جائے تووہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔ یہ تو مشینوں کی کارفرمائی ہے کہ مریض کم وبیش مدت گزار لیتا ہے، غرض اپنی حالت کے اعتبار سے وہ مضطر ہی ہوتا ہے۔ مشینوں پر سہارا کرنا خود ایک پُرمشقت کا م ہے جو کسی وقت بھی غیر مفید ہو سکتا ہے۔ یہ قول بھی قابلِ اختیار نہیں : اگرچہ فقہاء کے اختلاف کے ہوتے ہوئے اضطرار کی حالت میں محدود پیوند کاری کے اِس قول پر عمل کرنے کی بظاہر گنجائش نظر آتی ہے لیکن کچھ اورپہلو ایسے بھی ہیں جواِس قول پر عمل کرنے میں رکاوٹ ہیں، وہ یہ ہیں :