ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
(ii) سائنس اورٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کسی میت کے اعضاء بڑی شائستگی کے ساتھ نکالے جاتے ہیںاور ضرورتمند کولگائے جاتے ہیں ۔ اہانت اوربے اکرامی اور ایذاء کا تصور نہیں ہوتا۔ اورحضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''یہ شبہہ کہ انسان کے اجزاء کا استعمال ناجائز ہے اِس لیے وارد نہ ہونا چاہیے کہ استعمال کی جو صورت کہ مستلزم اہانت ہو وہ ناجائز ہے۔ اورجس میں اہانت نہ ہوتو بضرورت وہ استعمال بھی ناجائز نہیں'' ۔( کفایت المفتی ص ١٣١ج٩) (iii) طب کی ترقی کی وجہ سے اب ضرورت بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ مذکورہ بالاقول پر ہونے والے چند اعتراضات اوراُن کا جواب : مذکورہ بالا عبارتوں میں حالت ِاضطرار میں مردہ آدمی کا گوشت کھانے کی اجازت دی گئی ہے، علاج کے طورپر انسانی اعضاء کے استعمال کی نہیں ۔اس لیے بعض حضرات نے اس پر چند اعتراض کیے ہیں ۔ ذیل میںہم اُن اعتراضات کو بھی اوراُن کے جواب کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ 1۔ جان بچانے کے لیے حرام تک کھانا واجب ہے جبکہ علاج معالجہ بذاتِ خود واجب نہیں ہے بلکہ محض مستحب ومسنون ہے ۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ علاج کرنا واجب نہیں ہے لیکن علاج کرنا ہوتو حلال علاج نہ ہونے کی صورت میں حرام کے استعمال کی اجازت ہے۔ 2۔ ممکن ہے کہ جن فقہاء نے انسانی میت کے گوشت کو کھانے کی اجازت دی ہے اُس کی وجہ سے اُن کے نزدیک اضطراراورکھانے کے وجوب کا مجموعہ ہو۔ اِس صورت میں اِس پر علاج معالجہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ انسانی میت کا گوشت بھی عام حالت میں حرام ہے اوراس کے مباح وحلال ہونے کی علت صرف اضطرار ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ذکر ہے الا ما اضطررتم الیہ (مگر جبکہ تم اس کی