ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کا خون بہائے یا اُس کی کھال یا اُس کے کسی عضو پر کوئی جنایت کرے مگر جبکہ وہ کسی ایسے جرم کا مرتکب ہو جو از روئے شرع ایسی جنایت کو جائز یا واجب کردے مثلاً کسی مسلمان کو جان بوجھ کرسرکشی سے قتل کرے یا محصن ہونے کی حالت میں زنا کرے یا اپنے دین کو ترک کردے اورمسلمانوںکی جماعت سے جدائی اختیار کرلے یا اللہ اور اُس کے رسول سے لڑائی اختیار کرے اورزمین میں فسادکرے وغیرہ ،جس میں شریعت قصاص یا حد یاتعزیر کو واجب کرتی ہے''۔ کما وردت نصوص کثیرة فی تکریمہ ورعایة حرمتہ بعد موتہ ففی سنن ابی داؤد وغیرہ ان النبی ۖ قال کسر عظم المیت ککسرہ حیا۔ '' جیسا کہ آدمی کی موت کے بعد اُس کی تکریم اوراُس کے احترام کی رعایت کے بارے میں بہت سی نصوص وارد ہوئی ہیں مثلاً سنن ابی دائود ودغیرہ میں ہے نبی ۖ نے فرمایا میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہے جیسے کسی زندہ کی ہڈی کو توڑنا''۔ غرض مذکورہ بالا مثالوں میں چاہے کتنا ہی فائدہ ہو لیکن بہر حال وہ مصالح مرسلہ کی مثالیں نہیں بن سکتیں کیونکہ اُن میں یاتو کسی مسلمان کو قتل کیا جا رہا ہے یا میت کا پیٹ چاک کیا جارہا ہے جودین کے اصول اوردین کی نصوص کے خلاف ہے۔ مصالح مرسلہ کی وہ مثالیں جو شرائط پر پوری اُترتی ہیں وہ چند ایک یہ ہیں : (i) جب بیت المال خالی ہو اور فوجی ضروریات کے لیے رقم نہ ہو تواُن ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مالداروں پر ٹیکس لگانا جائز ہے کیونکہ اگروہ ضروریات پوری نہ ہوں گی تو فوج کے سپاہی وغیرہ اپنی کمائی میں لگ جائیں گے اورفوجی ڈسپلن میں نہ رہیں گے ،تو باہر سے کافر چڑھ دوڑیں گے اوراندر سے باغی اُٹھ کھڑے ہوں گے اوراِس طرح سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا جس سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ مالداروں پراِن ضروریات کابوجھ ڈال دیا جائے۔