ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
الاجماع و ان تکون مصلحة عامة بحیث تجلب النفع لا کبر عدد من الناس (اصول الفقہ الاسلامی ص ٨٠٠) '' وہ مصلحت حقیقی وواقعی ہو،مو ہوم نہ ہو، اس طرح سے کہ اُس سے فائدہ حاصل ہو تا ہو یا نقصان کو دُور کیا جاتا ہو اوراُس مصلحت پر عمل نص یا اجماع سے ثابت ہونے والے کسی حکم یا مبداء کے مخالف نہ ہو اورمصلحت عام ہو کہ اس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو نفع پہنچتا ہو''۔ ان تینوں شرائط کو سامنے رکھا جائے تو جواز کے قائلین کی دی ہوئی مذکورہ بالا کوئی بھی مثال درست نہیں بنتی کیونکہ اِن میں سے ہر ایک مثال مصالح مرسلہ کے موثر ہونے کی تین شرائط میں سے پہلی ہی شرط کے منافی ہے۔ پہلی شرط میں یہ بات شامل ہے کہ مصلحت شریعت کے کسی اصول کے منافی نہ ہو اورشریعت کی کسی نص اوردلیل ِقطعی کے مخالف نہ ہو۔ جبکہ ذکر کردہ ہرمثال شریعت کے اِس اصول کے منافی ہے کہ مسلمان خواہ زندہ ہو یا مردہ اُس کی حفاظت اوراُس کا احترام واجب ہے اوریہ اصول چونکہ نصوص سے ثابت ہے اِس لیے مذکورہ مصالح شرعی نص کے مخالف بھی ہیں ۔ سعودیہ کے کبار علماء کے ایک بورڈ نے جو خود انسانی اعضاء کی پیوند کاری کو مصلحت مرسلہ شمار کرکے اس کو جائز کہتا ہے ،یہ لکھا ہے : ثبتت عصمة دم المسلم بالکتاب والسنة واجماع الامة فلا یحل لاحد ان یسفک دم مسلم اویجنی علی بشرتہ او عضو من اعضائہ الا اذا ارتکب من الجرائم یبیح ذالک منہ او یوجبہ شرعا کان یقتل مومنا عمدا عدوانا او یزنی وھو محصن او یترک دینہ ویفارق الجماعة او یحارب اللّٰہ ورسولہ ویسعی فی الارض فسادا و نحو ذلک مما اوجبت الشریعة فیہ قصاصا او حدا او تعزیرا۔ (حکم تشریع جثة المسلم ٩) '' مسلمان کے خون کی عصمت قرآن سنت اوراجماع اُمت سے ثابت ہے لہٰذا کسی کے