ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
اصول کے منافی ہو اور نہ کسی شرعی نص یا کسی قطعی شرعی دلیل کے معارض ہو بلکہ شارع نے جن مصلحتوں کی تحصیل کا قصد کیا ہے اُن کے موافق ہو اور اُن کے ہم جنس ہو اور اُن کے غیرمناسب نہ ہو ااگرچہ اُس کے مصلحت کے حق میں کوئی مخصوص دلیل نہ ہو''۔ (ii) ان تکون معقولة فی ذاتھا جرت علی الاوصاف المناسبة المعقولة التی یتقبلھا العاقل بحیث یکون مقطوعا ترتب المصلحة علی الحکم ولیس مظنونا ولا متوھما ۔ '' وہ مصلحت فی ذاتہ عقل میںآنے والی ہو اوراُن مناسب اوصاف میں سے ہو جن کو کسی عاقل کی عقل قبول کرتی ہو اورحکم پر مصلحت کا ترتب قطعی ویقینی ہو ،نہ ظنی ہو اورنہ وہمی ہو'' ۔ (iii) ان تکون المصلحة التی یوضع الحکم بسببھا عامة للناس ولیس لمصلحة فردیة اوطائفة معینة لان احکام الشرع موضوعة لتطبیق علی الناس جمیعا فمثلا قتل مسلم تترس بہ الکفار فی قلعة لا یصح تجویزہ متی امکن حصار ھم ولا یخشی منھم التسلط علی بلاد المسلمین ۔ '' وہ مصلحت جس کی وجہ سے حکم لگایا گیا ہے لوگوں کے لیے عام ہونی چاہیے کسی ایک خاص فرد یا ایک جماعت کے ساتھ مخصوص نہ ہو کیونکہ شرعی احکام تو سب لوگوں کے لیے ہوتے ہیں لہٰذا کافر فوج اگر قلعہ میں ہو اور کسی مسلمان قیدی کو اپنی ڈھال بنا لے تو جب تک کافروں کا محاصرہ کرنا ممکن ہو اور اُن کا مسلمان علاقوں پر تسلط حاصل کرنے کا خوف نہ ہو ،مسلمان فوج کے لیے اِس مسلمان قیدی کو قتل کرنا جائز نہیں ''۔ ان تینوں شرطوں کوعلامہ وہبہ زحیلی نے مختصر طورپر یوں لکھا : ان تکون مصلحة حقیقےة لا وھمیة بحیث یجلب بھا نفع او یدفع بھا ضرر والا یعارض العمل بھذہ المصلحة حکما او مبدء ا ثبت بالنص او