ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
باتیں جو ڑتا ہے (اورراہ پیدا کرتا ہے )وہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ یہ سب تذکرة الحفاظ جلد اول ص١٨٠سے ماخوذ ہے ۔ قرآن پاک کی فضیلت کے بارے میں ایک روایت میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ یَجِےْیُٔ صَاحِبُ الْقُرْآنِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۔۔۔ الحدیث (مستدرک ص٥٥٢)۔اس حدیث میں آتا ہے کہ اس سے فرمایا جائے گا کہ ''پڑھتا جا اوردرجات قرب میں چڑھتا جا ۔'' اورہر آیت پر اِس کی ایک نیکی بڑھادی جائیگی ۔ اسی مناسبت سے آخرمیں تبرکاً ایک ایسے عالم ربانی کے دوواقعے لکھتا ہوں جو سنت پر قائم اورمبلّغِ دین تھے جو قرآن پاک کی سات متواتر قرأتوں میں ایک کے امام ہیں اِن کا اسم گرامی'' حمزہ'' ہے۔ خدا کی قدرت کہ حضرة عبداللہ بن مسعود کی تعلیم اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دارالخلافہ بنانے سے کوفہ میں علماء صحابہ کی ساری دُنیا کے مقامات سے ز یادہ اکثریت ہو گئی ۔ قراء سبعہ میں سے تین کوفی ہیں جبکہ چار ساری دنیا کے مختلف مقامات میں تھے، اورقراء عشرہ میں سے چار کوفی ہیں چھ سارے عالمِ اسلام کے مختلف مقامات میں تھے۔ ان قراء توںکے حق ہونے پر ہر مسلمان کا ایمان ہے چاہے وہ قاری ہو یا نہ ہو۔ اہلِ کوفہ میں ابوعبدالرحمن بن عبداللہ بن حبیب السلمی بھی ہیں۔ ا نہوں نے حضرت عثمان اورحضرت زید بن ثابت سے بھی قراء ت سیکھی تھی اورقرآن پاک سنایا ،چالیس سال مسجد کوفہ میں پڑھاتے رہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حکم سے حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہما نے اِن سے قرآن پاک کی قراء ت سیکھی حالانکہ وہ تابعی تھے اوریہ حضرات صحابی تھے۔ امام عاصم نے حضرت علی کی قراء ت اِن ہی سے لی ہے۔یہی وہ قرأت ہے جس کے آگے راوی حفص ہیں (حفص عن عاصم )۔حق ارشاد فرمایا : اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیّ بَابُھَا۔ غرض حمزہ رحمةاللہ علیہ اُن سات میں سے ایک ہیں ۔ ان کے شاگرد سلیم بن عیسیٰ کہتے کہ میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے رُخسار زمین پر لگارہے تھے اوررورہے تھے ۔ یہ اس حالت کو دیکھ کر ہکابکا رہ گئے اورعرض کرنے لگے کہ خدا آپ کو اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے ،یہ رونا کیسا ہے؟ وہ فرمانے لگے کہ میں نے گزشتہ شب یہ دیکھا کہ قیامت آگئی ہے اورکسی نے قرآن پاک کے قراء کو بلایاتو میں بھی اُن میں ہوں جو بلانے پر