ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
ہر شب سورۂ واقعہ کی تلاوت کی فضیلت بھی ارشاد فرمائی گئی اس میں ایک دنیوی نفع بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس کا پڑھنے والا فاقہ سے محفوظ رہے گا ۔ قرآن پاک جس کی عظمت تحریر نہیں کی جاسکتی ۔ جب اتنا عظیم المرتبت ہوا توا ِسی قدر اِس کی تعظیم واجب ہوگی اورسرورکائنات علیہ الصلٰوة والسلام کے طریقے کو اِس کے فہم کے وقت سب سے مقدم کرنا ہوگا ۔ ورنہ اسی قدر عظیم خطرات بھی پیش آنے کا اندیشہ ہوگا ۔جب آپ حضرات عربی پڑھیں گے اورترجمہ قرآن پاک دیکھیں گے تو بہت سی جگہ لغت کے ترجمہ سے اکابر علماء کا ترجمہ ہٹا ہو ادیکھیں گے ۔ اسکی وجہ یہی ہوتی ہے کہ شریعت مطہرہ نے اس لفظ کو خاص معنی میں استعمال فرمایا ہوتا ہے وہاں تک سوائے ان حضرات کے جو علم کی گہری بصیرت رکھتے ہوں دوسروں کی نظر نہی جاتی ۔بخاری شریف میں تفسیر دیکھنے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے مثلاًعَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ کا ترجمہ تو یہ ہے کہ وہ جو کچھ کیا کرتے تھے اُس کے متعلق اُن سے قیامت میں سوال ہوگا ،لیکن امام بخاری نے تفسیر کی ہے۔عَنْ قَوْلِ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی اُن سے قیامت کے دن لاالٰہ الا اللہ کے بارے میں سوال ہوگا ۔ آپ کا جی چاہے گا کہ جہاں سہولت کی چیز میسر ہو فوراً گنجائش نکالیں ۔یہ انسان کا نفس اپنی طرف کھینچتا ہے اس سے بچنا چاہے ،امام اوزاعی رحمة اللہ علیہ جن کے بارے میں حاکم فرماتے ہیں کہ اوزاعی اپنے زمانہ کے سب کے امام تھے اوراہلِ شام کے خصوصاً ، وہ فرمایا کرتے تھے : خَمْسَة کَانَ عَلَیْھَا الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُوْنَ ...الخ پانچ باتوں پر صحابۂ کرام اورتابعین قائم رہتے تھے۔ (١) جماعت کے ساتھ رہتے تھے (یعنی اقوال وعقا ئدمیں) (٢) سنت کی پیروی کرتے تھے (٣) مسجدیں آباد رکھتے تھے (جماعت وتلاوت وغیرہ مناسب کاموں سے جو مسجد میں ہوتے ہیں ) (٤) تلاوت (٥) جہاد اوزاعی فرماتے تھے : آثار سلف پر قائم رہو چاہے تمہیں لوگ چھوڑ دیں ۔لوگوں کی رائے سے بچو اگرچہ وہ خوب عمدہ (مزین)ہو۔ معاملہ سب کھل جائے گا اورتم ہی صراط مستقیم پر نظر آئوگے ۔وہ فرماتے تھے جو علماء کی نادر