ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
یمان وایقان کی تازگی ہوگی چاہے معنی نہ سمجھ میں آرہے ہوں ۔نیز جو بھی قرآن پاک تلاوت کرنے والا تلاوت کرے گا اور دل میں یہ اعتقاد قائم رکھے گا تو یقینا اُس کی توجہ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف ہوگی اورجتنی دیر اس طرح خدا وند ِکریم کی طرف پڑھتے یا سنتے وقت متوجہ رہے گا کہ '' یہ اُس کا کلام ہے '' اُسے اِس توجہ پر اجر ملے گا اوراِس کا خداوندکریم کی اِس صفت ِعظیمہ سے اتصال رہے گا۔ بکثرت حفاظ ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی نظرمعانی تک نہیں پہنچتی مگر اجر اُن کو ملتا ہے۔اُن کی ایمانی قوت بڑھتی ہے۔ اُن کی صورت ، سیرت اورمعاملات سب ہی میں رفتہ رفتہ تقوٰی سرایت کرتا چلاجاتا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے۔ اَلصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ....۔الحدیث (مستدرک ص٥٥٤ج١ ھذاحدیث صحیح علی شرط مسلم ) روزہ اور قرآن پاک بندہ کی شفاعت کرتے ہیں ، روزہ عرض کرتا ہے کہ خداوندکریم میںنے دن میں اِس کی مرغوب چیزوں اورکھانے سے اِسے روکا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہتا ہے کہ میں نے رات کو اِسے سونے سے روکا ،تو دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔اس لیے آپ صحابہ کرام کے علاوہ بزرگان دین کے حالات میں شغف بالقرآن بہت پائیں گے ۔ منصوربن المعتمررحمة اللہ علیہ چالیس دن روزہ سے رہے اورساری رات عبادت میںروتے رہتے تھے۔صبح کو آنکھوں میں سرمہ لگالیتے تھے اورسرپر تیل وغیرہ لگا کر اپنی حالت دُرست کرلیتے تھے ۔ان کی والدہ فرماتی تھیں کہ کیا تم نے قتل کے جرم کا ارتکاب کیاہے ؟ وہ عرض کرتے تھے کہ میں جانتا ہوں جو میرے نفس نے کررکھا ہے۔( تذکرة الحفاظ للذہبی ص١٤٢ ج ١) ابو مسہر فرماتے ہیں کہ امام اوزاعی ساری رات نماز تلاوت اوررونے میں گزار دیتے تھے( تذکرہ ص١٧٩ ج ١) ابن ِابی ذئب کے بھائی اُن کا حال بیان کرتے ہیں کہ ایک روزروزہ رکھا کرتے تھے ایک دن نہیں رکھتے تھے، پھر مسلسل رکھنے لگے۔اِن ہی کے بارے میں ہے کہ ساری رات عبادت میں گزارتے تھے اوراگراِن سے یہ کہا جاتا کہ کل قیامت آنے والی ہے تو (وہ پہلے ہی سے اتنی عبادت کے عادی تھے کہ)اُن کی عبادت میں اورزیادتی نہیں ہو سکتی تھی ۔( تذکرہ ص١٩١ ج ١ )