ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
'' مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ فَقَدِ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّةَ بَیْنَ جَنْبَیْہِ غَیْرَاَنَّہُ لَا ےُوْحٰی اِلَےْہِ (مستدرک ص ٥٥٢) ''جس نے قرآن پاک پڑھ لیا اُس نے (گویا علم ) نبوت اپنے پہلوئوں میں سمولیا سوائے اس کے کہ اِس پر وحی نہیں اُتری''۔ ارشاد فرمایا گیا : لَا حَسَدَ اِلاَّ عَلَی اثْنَیْنِ.... الحدیث یعنی قابلِ حسد وغبطہ تو دو قسم کے آدمی ہیں، ایک وہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک عطا کیا ہے وہ دن کے اوقات میں بھی اِسے (عمل وتلاوت سے) قائم رکھتا ہے اوررات کو بھی تلاوت کے لیے کھڑا رہتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے اوروہ (اُس کی خوشنودی کے لیے ) دن اوررات کے اوقات میں صرف کرتا رہتاہے۔ نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَرَأَ عَشْرَاٰیَاتٍ فِیْ لَیْلَةٍ لَّمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ (مستدرک ص٥٥٥ ج ١) ''جو کسی شب دس آیتوں کی تلاوت کرے وہ غافلوں میں نہیں لکھا جاتا۔'' ایک حدیث پاک کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اُتْلُوْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَأْجُرُکُمْ عَلٰی تِلَاوَتِہ کُلَّ حَرْفٍ عَشْرَحَسَنَاتٍ...الحدیث (مستدرک ص٥٥٥ ج١) ''قرآن پاک کی تلاوت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اِس کی تلاوت پر ہر حرف پردس نیکیاں عطا فرمائے گا۔ دیکھو میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم'' ایک حرف ہے بلکہ یہ الف لا م اور میم ہیں (یہ تین حرف ہیں)''۔ جناب رسول اللہ ۖ نے مثال کے لیے وہ آیت پیش فرمائی ہے جس کا مطلب اُمت میں کسی کی بھی سمجھ میں قطعی طور پر تو نہیں آ سکتا اور کوئی مطلب کی قطعی تعیین کا دعوٰی نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے جس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ جب انسان کلامِ الٰہی ہونے کے اعتقاد سے اِن کی تلاوت کرے گا تو