ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
قرآن پاک کلام اللہ ہے ۔ قائم بذاتہ تعالیٰ ہے۔ احمد بن نصر رحمة اللہ علیہ تو قرآن پاک کے کلامُ اللہ اور غیر مخلوق ہونے میں اتنی بڑی آزمائش سے گزرے ہیں کہ شہیدہی کر دئیے گئے ،وہ حماد بن زید سفیان بن عینیہ اور امام مالک رحمہم اللہ کے شاگرد تھے۔ یحیٰ بن معینکے اُستاذ تھے ،اُن کا قاتل خود واثق تھا۔( البدایہ والنھایہ ج ١٠) امام شافعی اس فتنہ کی شدت سے پہلے مصر تشریف لے گئے تھے لیکن جب یہ فتنہ جنم لے رہا تھا تو وہ یہ فرمایا کرتے تھے : اَلْقُرْاٰنُ کَلَامُ اللّٰہِ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ وَمَنْ قَالَ مَخْلُوْق فَھُوَکَافِر ( البدایہ ص٢٥٤ جلد ١٠) ''قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے اور جس نے اس کو مخلوق کہا وہ کافر ہے''۔ پھر امام احمد بن حنبل اور احمد بن نصر مذکورالصدررحمہم اللہ شدید امتحان سے گزرے۔ یہ مسئلہ بہت مشکل ہے مگر یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے اِسی طرح اُس کی صفات بھی قدیم ہیں جن میں اُس کی صفت علم بھی ہے اورصفت کلام بھی ہے ۔ قرآن پاک اُس کا کلام ہے وہ بھی مخلوق نہیں ہے ۔ جب ہم اُس کی تلاوت کرتے ہیں تو ہماری زبا ن اُس کلام کا محل ِظہور ہوتی ہے اور کلام وہی کلامِ قدیم پہلے سے ہوتا ہے ۔اللہ پاک اپنے کلام اوروحی کے ظہور کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار فرماسکتا ہے ۔ چاہے طورپر درخت کو ذریعہ بنالے، چاہے فرشتہ کو ذریعہ بنالے اورچاہے لوحِ محفوظ کو۔ اُمت ِمحمدیہ علی صاحبہا الصلٰوة والسلام والتحیة کو یہ نعمت ِعظمیٰ عطا ہوئی کہ وہ اپنی زبان کو ادائِ کلامِ الہٰی کے لیے استعمال کرسکیں ۔ ہم لوگ جب کسی کی کوئی بات نقل کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کہی اُس کے الفاظ یہ تھے وغیرہ ،اوروہ قول اُسی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔اِسی طرح قرآن پاک کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔ اس لیے حدیث مذکورمیں اتنی عظیم فضیلت ارشاد فرمائی گئی ۔ ایک اورحدیث میں نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام ارشاد فرماتے ہیں : خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہ ۔(بخاری) ''تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو قرآن پا ک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اورتعلیم دیتے ہیں ''۔ ارشاد ہوا :