ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004 |
اكستان |
|
وقت اور فاضل ،عالم کی توقیر کو واجب قرار دینے پر اجماع ہے۔ (الآداب الشرعیہ ١/٤٩٥) امام مالک فرماتے ہیں کہ ہارون رشید نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماعِ حدیث کی خواہش ظاہر کی میں نے کہلا بھیجا کہ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا ۔رشید یہ جواب پاکر خود آئے اور آکر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے میںنے کہا : یا امیر المومنین ! ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبة المسلم یعنی خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کا احترام کیاجائے ۔ ہارون کھڑے ہوگئے پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے ایک مدت کے بعدپھر ملاقات ہوئی تو کہا یا اباعبداللّٰہ تواضعنا لعلمک فانتفعنا بہ ہم نے آپ کے علم کے لیے تواضع کیا تو ہم نے اس سے نفع اُٹھایا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥) امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ خلیفہ مہدی جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور امام مالک ان کے سلام کو گئے تومہدی نے اپنے دونوں لڑکوں ہادی اوررشید کو امام مالک سے حدیث سننے کا حکم دیا ،جب شہزادوں نے امام مالک کو طلب کیا توانھوں نے آنے سے انکار کردیا۔ مہدی کواس کی خبر ہوئی اور اس نے ناراضی ظاہر کی تو ا مام نے فرمایا کہ العلم اھل ان یوقرویؤتی اھلہ یعنی علم اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی توقیر کی جائے اور اس کے اہل کے پاس آیاجائے۔ اب مہدی نے خود لڑکوں کو امام صاحب کے پاس بھیجا ،جب وہ وہاں پہنچے تو شہزادوں کے اتالیق نے امام سے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود پڑھ کرسنادیں ، امام نے فرمایا کہ جس طرح بچے پڑھتے ہیں اور معلم سنتا ہے اسی طرح اس شہر کے لوگ محدث کے پاس حدیثیں پڑھتے ہیں جہاں خطا ہوتی ہے محدث ٹوک دیتا ہے ۔ مہدی کو اس کی خبر پہنچائی گئی اوراس نے اس پربھی اظہار عتاب کیا، توامام مالک نے مدینہ کے ائمہ سبعہ کانام لے کر فرمایا کہ ان تمام حضرات کے یہاں یہی معمول تھا کہ شاگرد پڑھتے تھے اور وہ حضرات سنتے تھے ۔یہ سن کر مہدی نے کہا کہ تو انہیں کی اقتداء ہونی چاہیے اور لڑکوں کو حکم دیا کہ جائو تم خود پڑھو،لڑکوں نے ایسا ہی کیا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥) ایک مرتبہ امام احمد کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا انکا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اورفرمایا کہ یہ ناز یبا بات ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے رہیں۔ (آداب شرعیہ ٢/٢٦) اُستاذ کا لحاظ پہلے لوگوں میں : امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت زید بن ثابت سوار ہونے لگتے تو حضرت ابن عباس رکاب تھام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ علماء کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے اسی طرح حضرت ابن عمر (صحابی ) نے مجاہد( تابعی) کی رکاب تھامی ۔امام لیث بن سعد امام زہری کی رکاب تھامتے تھے ۔مغیرہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی ہیبت ہم پر ایسی تھی جیسی بادشاہ کی ہوتی ہے