ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004 |
اكستان |
|
وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا حج ان الحج یغسل الذنوب کما یغسل الماء الدنس (حضرت مولانا محی الدین صاحب رحمہ اللہ ) ہندوچین اور جاپان کی قومیں اپنے معبودوں کے ستھانوں کی زیارت زمانہ قدیم سے کرتی آئی ہیں ، اسی طرح قوم یہود اپنے قدیم ترین دور میں یروشلم کے اُس مکان کی زیارت کرتی تھی جہاں تابوتِ موسیٰ تھا ۔اور مسجد اقصیٰ اور ہیکل سلیمانی کی بھی زیارت کرتے تھے اور عیسائیوں نے بھی بیت المقدس کے اُس مقام کی زیارت شروع کردی تھی جہاں ان کا مقدس ''کینسة القیامہ '' ہے۔ کعبہ شریف ( مسجد حرام ) کی زیارت بھی اپنی قدیم تاریخ رکھتی ہے کیونکہ یہ بات ہرایک جانتا ہے کہ مکہ مکرمہ پہلے ناقابلِ ذکر مشکل حالات میں تھا اور بیت اللہ کی تعمیر سے پہلے وہاں کوئی مسکونہ مکان نہ تھا چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اورلڑکے کے ساتھ ہجرت کی اورمکہ میں ان کو ٹھہرایاپھر جب آپ کی اہلیہ حضرت ہاجرہ اورآپ کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر چاہِ زمزم کا دہانہ جاری ہوگیا تو اُس وقت سے اس خشک مقام میں زندگی کی روح دوڑی اور بہت سے رہائشی مکانات تعمیر ہوئے اورجب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام طفلی کے دور سے گزر کر جوانی کی عمر میں داخل ہوئے تو اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے بیت اللہ کی تعمیر شروع کردی۔ قرآن نے اس تاریخی حقیقت کا ذکر اس طرح کیا ہے : واذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت واسمٰعیل (پ١) ''ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام بیت اللہ کی دیواریں اُونچی کررہے تھے۔ پھر خدا کا حکم ہوا کہ اس گھر کو اللہ کی عبادت کرنے والوںکے لیے پاک کریں ، چنانچہ قرآن کاارشاد ہے : و اذ بوأنا لابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئًا وّ طھّر بیتی للطّآئفین و القائمین والرّکع السّجود ۔ ہم نے ابراہیم کیلیے اس گھر کی جگہ مقرر کرکے یہ بتا دیا کہ مرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے اس گھر کو طواف کرنیوالوں،قیام،رکوع وسجودکرنیوالوں کیلیے پاک و صاف کرو۔