Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004

اكستان

45 - 66
قسط  :  ١
حُسنِ ادب اور اُس کی اہمیت 
(حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ)
	بڑوں کا ادب واحترام ، اساتذہ وشیوخ کا اکرام وخدمت گزاری اوراُن کا پاس ولحاظ ہمیشہ سے اکابر دین علماء سلف کا امتیازی وصف رہا ہے مگر آج آزادی کے غلط تصور اور مغرب زدگی کے اثر سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں ۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ہمارے دینی مدارس کے طلبہ میں جو شائستگی وتہذیب جو متانت وسنجیدگی اور جو ادب واحترام پایا جاتا تھا آج اُس کی جھلک بھی کہیں مشکل ہی سے نظر آتی ہے ،یہ کمی بڑی افسوسناک کمی ہے۔ علومِ دینیہ کے حاملین کو اسلامی تہذیب ،اسلامی آداب ، اور اسلامی اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے ہمارے اکابر واسلاف کی روش قابل تقلید ہے اسی میں ہماری عزت وسربلندی ہے اور اسلاف کی مستحسن روش ہی پر چل کر ہم اسلام کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے مذہب نے جس طرح عقائد وعبادات اورمعاملات واخلاق کے سبق ہم کو بتائے ہیں اسی طرح اُس نے ہم کو آداب بھی سکھائے ہیں ،نیک روش ،اچھے چال چلن اور عمدہ طور طریق کی تعلیم بھی دی ہے اوردوسرے امور دین کے ساتھ ساتھ ادب ووقار سیکھنے اورسکھانے کی تاکید بھی کی ہے۔ آنحضرت  ۖ نے فرمایاان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسة وعشرین جزء من النبوة رواہ احمد ۔(عمدہ روش ،اچھے انداز اورمیانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے یعنی یہ چیزیں انبیاء علیھم السلام کے عادات وفضائل میں سے ہیں ) اسی لیے علماء نے فرمایا یسن ان یتعلم الادب والسمت والفضل والحیاء وحسن السیرة شرعا و عرفا (الآداب الشرعیہ ١/٤٧٢)یعنی ادب ووقار، فضل وحیا اورحسن سیرت سیکھنا شرعاً وعرفاً مسنون ہے ۔ 
	نیز حدیث نبوی میں وارد ہے لان یؤدب الرجل ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع ۔ (ترمذی ) آدمی اپنی اولادکو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے اور فرمایا مانحل والد ولدا من نحلة افضل من ادب حسن ۔ کسی باپ نے اپنی اولاد کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا، اور ا رشاد ہے کہ بیٹے کا ایک حق باپ پر یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا ادب سکھائے (عوارف)۔ ایک اورحدیث میں ہے تعلموا العلم ، وتعلموا للعلم السکینة والو قار وتواضعوا لمن تعلمون منہ ۔ (طبرانی ) علم سیکھو اور علم کے لیے سکون وقار سیکھو، اورجس سے استفادہ کرواس کے لیے تواضع کرو۔ اس مضمون کا ایک اثر بھی حضرت عمر سے مروی ہے۔(الآداب الشرعیة ٢/٥١  

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
58 اس شمارے میں 3 1
59 حرف آغاز 4 1
60 درس حدیث 6 1
61 حضراتِ انصار سے محبت کا عام اعلان 6 60
62 انصار کے متعلق پیشین گوئی : 6 60
63 حضراتِ انصار کو نصیحت : 7 60
64 حضرت ابو سفیان کامزاج اور حضرت عباس کی دانائی : 7 60
65 فتح کے بعد امن نہ کہ قتل و غارت : 7 60
66 انصار کے خیال کی تردید : 7 60
67 حضرت انصار کا محبت بھرا جواب : 9 60
68 محبت کی تصدیق اورعذر کی قبولیت : 9 60
69 خود شناسی 10 1
70 وفیات 13 1
71 الوداعی خطاب 14 1
72 باعمل مومن کے سواہر انسان خسارے میں ہے : 14 71
73 حق اور مصائب ساتھ ساتھ : 14 71
74 عمل ِصالح کا مطلب : 14 71
75 مثال سے وضاحت : 15 71
76 اشکال کا رفع : 15 71
77 مثال سے وضاحت : 15 71
78 صحبت کے بغیر دین پر عمل کرنا مشکل ہے : 17 71
79 آپ مقصد کی طرف بڑھنا شروع ہوئے ہیں : 18 71
80 آپ کو اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے : 18 71
81 دینی مدارس اور برطانیہ کا وزیراعظم : 19 71
82 ہوش سے کام لینا ہے جوش سے نہیں : 20 71
83 آغا خانیوں کے ذریعہ فتنہ پھیلایا جارہا ہے : 22 71
84 دینی مدارس ختم ہو گئے تو معتدل طبقہ کی پیداوار بند ہو جائے گی : 22 71
85 فلاح کا مطلب : 23 71
86 دوقسم کے لوگ : 24 71
87 مسلمان ہو یا کافر ہر کسی کے ساتھ خیر کرو : 25 71
88 حج 28 1
89 فرضیت ِحج کی حکمت : 29 88
90 فرضیت ِحج : 30 88
91 حج کی غرض و غایت : 32 88
92 ہدیہ عقیدت 33 1
93 مکتب نتائج الاختبار 34 1
94 طلبۂ دینیہ سے خطاب 44 1
95 بقیہ : الوداعی خطاب 44 71
96 حُسنِ ادب اور اُس کی اہمیت 45 1
97 اُستاذ کامرتبہ : 46 96
98 اُستاذ اور ہر عالم کے حقوق : 48 96
99 اجلال علم وعلماء : 49 96
100 اُستاذ کا لحاظ پہلے لوگوں میں : 50 96
101 عازمینِ حج سے چند گزار شات 53 1
102 حرام مال کا استعمال : 54 101
103 سیر و تفریح کی نیت سے حج کرنا : 55 101
104 حج کے موقع پر اسراف وفضول خرچی : 56 101
105 حج کے دوران بے پردگی : 56 101
106 نماز کی ادائیگی میں لاپرواہی : 56 101
Flag Counter