ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004 |
اكستان |
|
کے ساتھ خدا شناسی حاصل ہوگی ۔ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَة وَلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہْ۔(سورہ قیامة پ ٢٩) بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے گووہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ کبھی انسان صحت مند ہے تو کبھی بیمار ہوتا ہے بیماری کی صورت میں وہ اتنا عاجز رہتا ہے کہ اپنی بیماری کو جو اُسی کے جسم میں ہوتی ہے نہیں پہچان سکتا اپنے باطن میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتا، آخر علم ناقص مستعار لیتا ہے طبیب و ڈاکٹر اسے دیکھتے ہیں حالات سنتے ہیں طرح طرح کے ٹیسٹ لیتے ہیں پھر بیماری کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں اور بعض اوقات پھر بھی بیماری کسی کی سمجھ میں نہیں آتی یا سمجھ میں آجاتی ہے مگر سب اس کے علاج سے قاصر رہتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتاہے کہ ایک انسان معمولی سی بیماری محسوس کرتا ہے ڈاکٹر بھی معمولی ہی سمجھ کر علاج شروع کرتے ہیں مگر وہ بجائے صحتمند ہونے کے اور بیمار ہوتا چلاجاتا ہے۔ کیا یہ انسان کی کھلی ہوئی عاجزی نہیں کہ دست ِقدرت اتنا لطیف وقوی ہے کہ اس کے سامنے سب عاجز آجاتے ہیں اسی لیے سرورکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ایک دُعا میں ارشاد فرمایا ہے : لَا شِفَآئَ اِلَّا شِفَآئُکَ خدا وندا تیری شفاء کے سواکوئی شفاء نہیں یعنی حقیقتاً شفاء تو ہی بخش سکتا ہے۔ وجدانیات کے لیے یعنی اُن چیزوں کے لیے جو انسان اپنے اندر پاتا ہے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہواکرتی۔ وہ اس کے لیے ایسی ہوتی ہیں جیسے مشاہدہ مثلاً کسی شخص کے سرمیں درد ہوتو اُسے اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوگی وہ خود یقین کے ساتھ اپنے درد کو محسوس کرے گا ایسے ہی خوشی اور غم، محبت اورنفرت ایسی وجدانی کیفیات ہیں جن کے لیے اُس انسان کو جوانہیں محسوس کررہا ہو کسی دلیل کی حاجت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر انسان خود شناسی کے ذیل میںان تصرفات ِقدرت پر نظر رکھے جو اُسے اپنی ذات میں نظر آسکتے ہیں تو اُسے معرفت ِخدا کے وجدانی دلائل دکھائی دیں گے۔ ارشادِ ربانی ہے : سَنُرِیْھِمْ اٰیٰاتِنَا فِی الْاٰٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی ےَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُ (پ ٢٥ رکوع ١)عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں دنیا میں دکھائیں گے اور خود اُن کے نفس میں یہاں تک کہ اُن پرواضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے