ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
ماثورہ) کلمات سے دعاء مانگی تو اس کی دعاء قبول نہیں کی جاتی ،مگر جبکہ وہ انتہائی بے قرار ہو۔ پس بندہ کو چاہیے کہ ماثورادعیہ سے کسی قدر دعائیں یاد کرلے تاکہ مصائب وشدائد کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ سکے۔ نیز اسی کتاب کے ص٥٩١ پر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ ومرشد حضرت علی خواص کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ماثوردعاء کو قبول فرماتے ہیں اس لیے کہ ماثوردعاء بھی از قسم وحی ہوتی ہے اوروحی اللہ تعالیٰ کی صفات سے ایک صفت ہے۔ پس گویا صفت سے موصوف کو مخاطب کیا جاتا ہے لیکن دعاء غیر ما ثور کے کلمات ان صفات سے خالی ہوتے ہیں ۔ نیز اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ ہرشخص کو چاہیے کہ مأ ثورکلمات سے ہی دُعاء مانگے اس لیے کہ کلام ِنبوت فصاحت اوربارگاہ الٰہی کے آدابِ عظمت ملحوظ رکھنے میں بہت بلند ہوتی ہے اور جن جن کلمات سے آنحضرت ۖ نے دعائیں مانگی ہیں وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہیں۔ پس جس شخص کے دل میں آنحضرت ۖ کی ذرّہ بھی عظمت ہوگی وہ کبھی اُس راستہ پر چلنے کی کوشش نہ کرے گا جس میں آنحضرت ۖ کی اتباع نصیب نہ ہو۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگوں نے ان ادعیہ کو تو ترک کررکھا ہے جو آنحضرت ۖ سے ما ثور ہیں اور احادیث میں مذکورہیں اور اُن کے بجائے امام بونی وغیرہ کے اورادو وظائف بڑی دلچسپی سے پڑھتے ہیں جن کے پڑھنے کیلیے بخورات اور خوردونوش وغیرہ کی عجیب شرائط بیان کی گئی ہیںحالانکہ کہاں بونی اور کہاں سرکارِ دو عالم ۖ کی ذات گرامی۔ واین نفس البونی مثلاً من نفس رسول اللّٰہ ۖ (ملخصاً از لواقح الانوار ص٣١٦ ) چہ نسبت خاک را با عالم پاک اورامام قرطبی اپنی مشہورو متداول تفسیر ص ٢٢٦ ج ٧ میں فرماتے ہیں : ومنھا ان یدعو بما لیس فی الکتاب و السّنة فیتخیّر الفاظاً مقفّاةً و کلماتٍ مسجّعةٍ قد وجدھا فی کراریس لا اصل لھا ولا معوّل علیھا فیجعلھا شعارہ ویترک ما دعا بہ رسولہ علیہ السلام ۔ ''اور از قبیل اعتداء فی الدعاء ایک یہ بھی ہے کہ کتاب وسنت کی ادعیہ کو چھوڑ کر اُن مقفّٰی الفاظ اور مسجع کلمات کا دعاء کے لیے اختیار کرے جو غیر مستند اور ناقابلِ اعتماد رسائل ، مکاتیب سے اخذ کی گئی_ ہوں اور اُن کواپنا شعار بنالے اور آنحضرت ۖ کی ما ثورادعیہ کوترک کردے''۔