ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
تھے۔ اس وجہ سے پولیس والے بھی آئے ہوئے تھے۔احقر کو تخصص کے ایک طالب علم نے بتایا کہ آپ پولیس کو دیکھ کر بڑے غصہ میں کہنے لگے کہ میرے جسم میں اتنا دم خم ہے کہ میں ہتھکڑیاں اب بھی برداشت کرسکتا ہوں ۔یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں بازو فضا میںلہرائے ۔گردوں کی خرابی ،دل کی بڑھوتری اور شوگر سمیت پانچ چھ امراض لاحق تھے لیکن وفات سے ایک ماہ پہلے تک تبلیغی اسفار جاری رہے۔ احرار مسجد چناب نگر میں ١٢ربیع الاول ١٤٢٥ھ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے احراری زعماء خصوصاً محترم عبداللطیف چیمہ صاحب کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا :اب میری دو آرزوئیں رہ گئی ہیں مجھے اپنی موت قریب محسوس ہورہی ہے ۔میں آپ حضرات کو وصیت کرتاہوں کہ ان دونوں کاموں کی طرف جماعتی سطح پرتوجہ فرمائیں اور اِن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں : (١) قا دیانی اوقاف کا سرکاری تحویل میں جانا (٢) شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ آپ نے صرف احراری زعماء کو ہی وصیت کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مجلس عمل کے ارکان پارلیمنٹ کو خطوط لکھ کر فون اور ملاقاتیں کرکے توجہ دلاتے رہے۔ اسی مقصد کے لیے قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملاقات کی حسرت لے کر دنیاسے رخصت ہوگئے، کئی ماہ کی کوشش کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی۔ شریف خاندان کے قائم کردہ شریف میڈیکل سٹی میں تین ہفتے زیرِ علاج رہے لیکن ''اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ''اور ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ''کے مصداق آخر وہ وقت آپہنچا جس سے نہ کوئی نبی بچا ہے اورنہ ہی ولی ۔ ٢٧ جون کو ذکرالٰہی کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور'' عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا'' انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ جنازہ ٢٧جون کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہوا جو اُن کی وصیت کے مطابق ولی کامل حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب دام مجدہ نے پڑھایا ، ٥٠ ہزار سے زیادہ کا مجمع تھا۔ جب ٢٧کی شام کو آپ کی میت چنیوٹ پہنچی تو چنیوٹ سے کئی کلو میٹر دورپانچ چھ ہزار سے زائدافراد سواریوں پر اور پیدل استقبال کے لیے موجود تھے ۔ ٢٨ جون کی صبح چینوٹ شہر کا ہر شہری گورنمنٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کی طرف رواں دواں تھا ۔ پورے ملک سے ہزاروں فرزندانِ توحید جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچے ۔ اسلامیہ کالج اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ثابت ہوا۔ فیصل آباد روڈ اورلاہور روڈ پر کئی فرلانگ تک صفیں تھیں ع عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے جنازہ میں ملک بھر سے علماء کرام، مشائخ عظام ،حفاظ و قراء اور عوام الناس نے شرکت کی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کا اجتماع تھا۔ جنازہ دیکھ کر مخالف مذہب و پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے نے کہا کہ ہماری تو اب آنکھیں کھلی ہیں۔ اب پتا چلاہے کہ مولانا چنیوٹی کیا تھے ۔افسوس کہ چنیوٹ کے عوام نے اُن کی قدرنہ