ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
مرقدہ و قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد ، اور ظاہر ہے کہ نہ دارالعلوم دیوبند محض ایک چاردیواری کا نام ہے اور نہ حضرت شیخ الاسلام محض ایک شخصیت کا نام ہے۔ یہ ہماری اس پوری جماعت کے لیے ہمارے اس مسلک حقہ کے لیے ایک متاع عزیز ہے۔ آج ہم جس علمی ماحول میں بیٹھے ہیں یہ اُسی درخشندہ آفتاب کی کرنیں ہیں یہ اُسی کی روشنی ہے جس میں ہم دین ِاسلام کا اور علوم اسلام کا ایک حصہ پارہے ہیں اس کی روشنی میں ہم چل رہے ہیں اس واسطہ پر ہمیں اعتمادہے جس کو ہم اپنے مستقبل کی کامیابی کا سبب سمجھتے ہیں اور اس کو ہم آخرت اور عقبٰی کی نجات کا سبب سمجھتے ہیں دنیوی اعتبار سے بھی جس پر اعتماد ہو اور اُخروی اعتبار سے بھی جس پر اعتماد ہو میں سمجھتا ہوں یہ وہ رشتہ ہے جس رشتہ کو پھر توڑا نہیں جا سکتا ۔مادی دنیا میں توڑ پھوڑ آجاتی ہے مادی دُنیا کی جغرافیائی حدود ہوتی ہیں لیکن رُوحانی دُنیا کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہوا کرتیں ۔مادی دُنیا کو تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن رُوحانی دنیا کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم رب ذوالجلال کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہمیں اس متاعِ عزیز سے نوازا ہے اس بڑے سرمائے سے نوازا ہے اور یہ عظیم الشان نسبت اللہ نے ہمیں بھی عطا کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مولانا کو دارالعلوم دیوبند سے براہِ راست نسبت ہے ۔ دارالعلوم کے فضلا ء میں سے بھی ہیں اور دارالعلوم کے اساتذہ میں سے بھی ہیں اور استاذالحدیث ہیں ۔ حضرت شیخ السلام سے آپ کو براہِ راست نسبت ہے آپ اُن کے فرزند ِارجمند ہیں لیکن جو علمی ، فکری اور نظریاتی نسبت اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو عطا کی ہے یہ ہم سب کے لیے سرمایہ افتخار ہے اور یقین جانیے تین سال قبل پشاور میں دارالعلوم دیوبند کا ڈیڑھ سوسالہ اجلاس جو ہم نے منعقد کیا ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمانانِ پاکستان اس قدر عقیدت کا اظہار کریں گے لیکن جب ہم نے قوم کو بلایا اور دارالعلوم دیوبند کے نام سے لوگوں کو بلایا تو آپ میں سے بہت سے ساتھی ایسے ہوں گے جنھوںنے اس منظر کو دیکھا ہوگا جب تین روزتک ایک ہی سرزمین پر ٢٠لاکھ سے زیادہ مسلمان جمع ہوئے اور پاکستان کی تاریخ میںاُس اجتماع نے ایسا نقش چھوڑا ہے کہ جہاں بڑے بڑے واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں وہ اجلاس بھی ہماری تاریخ حصہ بن گیا ۔اس سب کچھ کے پیچھے کس کی محنت ہے؟ اس سب کچھ کے پیچھے کی قربانیاں ہیں ؟یہ خود بخود نہیں ہوا بلکہ اس کی پشت پر کئی ہیں جن کی محنتوں نے آج انسانیت کویہ شعور عطا کیا ،حجة الاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمہ اللہ ، حجة الاسلام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اور اس جماعت نے اپنے وقت میں جس بات کی بنیاد رکھی، اللہ کی طرف سے ایسی قبولیت عطا ہوئی کہ آج بھی اس کی قبولیت کے مظاہر دنیا کے کونے کونے میں نظر آرہے ہیں ۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے دارالعلوم کی فکر کو اس کے نظریہ کو چاہے ہم اس کو ہندوستان کی آزادی کے