ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
پوری کرتے ہیں آپ جو مسافر آتا ہے اُس کی خبر گیری کرتے ہیں یعنی'' سوشل ورک'' جسے کہا جاتا ہے ۔ دو بنیادیں تھیں اسلام کی عبادت اور خدمت ۔یہ دوپہلو ہیں اسلام کی گاڑی کے اور دونوں کو برابرر کھنا پڑے گا۔ اگر گاڑی کاایک پہیہ اُوپر ہو اور ایک نیچے تو گاڑی نہیں چلے گی ۔عبادت کا جب بہت زیادہ جوش مارے تو وہاں پر خدمت کی طرف آدمی کو توجہ دینی چاہیے اور جہاں خدمت میں اتنا لگ جائے کہ عبادت سے غفلت ہوجائے تو عبادت کی طرف توجہ دینی چاہیے تو ہمارا تعارف دنیا میں یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں جو بیوائوں اور یتیموں کے لیے یہ یہ کرتے ہیں ۔کیا ہمارا یہ فی الواقع تعارف ہے؟ ہم جس کے وارث کہلاتے ہیں ایساتو نہ ہو کہ ہماری وجہ سے اُن پرکوئی حرف آئے، پھر دوسری بات کہ حضور اکرم ۖ نے پوری انسانیت کو سامنے رکھا ۔آپ نے پہلی مرتبہ جب آپ کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانے کا وانذر عشیر تک الاقربین توآپ نے اُس زمانہ کا جو طرز تھا لوگوں کو جمع کرنے کا ،ہردور کا ایک میڈیا ہوتا ہے ایک طرز ہوتا ہے تو آپ نے صفا کی ایک پہاڑی پر چڑھ کر یا صبا حاہ کرکے ایک آواز دی چلائے یہاں تک کہ گھبراکر لوگ نکل آئے کیونکہ جب کوئی خاص واقعہ ہوتا تھا یا دُشمن حملہ کردے تو وہاں اس طرح کوئی کھڑا ہو کر چلاتا تھا آواز دیتا تھا تو لوگ آگئے پھر آپ نے پہلا جو خطاب کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا اے مکہ والو! اے قریشیوں ! اے میرے خاندان والو! آپ نے فرمایا : ایھاالناس انسانیت کو خطاب کیا پوری انسانیت کو اور اگر آپ دیکھیں حجة الوداع کو جو خطبہ ہے اور آج کا UNO کاجوچارٹ ہے انسانیت کے لیے وہ اسی کا ترجمہ معلوم ہوگا آپ کو ۔ تو علم ِدین کا سیکھنا اور اس علم ِدین کو پھیلانا اور دُنیا کے مسائل اس سے حل کرنا ،یہ ساری ذمہ داری ہم پر ہے۔ اس وقت پاکستان مسلمانوں کاایک ملک ہے کوئی انگریز حکومت نہیں کر رہا یہاں پر کہ ہم مدرسہ کی چاردیواری یا مسجد کی چار دیواری میں اپنے ایمان کو بچانے کی فکر میں ہوں جیسے ہندوستان میں جس طرح انگریز آیا تھا اور علماء کا قتل ِعام کیا تھا اور جس طرح مدارس بند کیے تھے اور مدارس کی ساری جائیدادیں ضبط کرلیں تھیں اور طے کرلیا تھا کہ سب کو عیسائی بنانا ہے اور کوئی مسلمان باقی نہ رہے تو انھوں نے ایک حکمت ِعملی اختیار کی تھی کہ چلو چھوڑ دو،دیہات میں جا کر دیوبند اور گنگوہ میں جا کر خانقاہوں اور اپنے علم کو مخفی رکھ کر بچانے کی کوشش کی جائے تو آج کوئی ایسی بات تو نہیں ہے کہ یہاں پر انگریز ہے اگرچہ عملاً آج کل امریکہ کی عمل داری ہے لیکن ہے تو مسلمانوں کا ملک، تو اس کی ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے تو یہاں پر کیا چیز غالب ہونی چاہیے ؟یہاں کا معاشی نظام کیا ہونا چاہیے ؟یہاں کا سیاسی نظام اور یہاں کی پارلیمنٹ میں کن اُمور پربحث ہو ،یہاں کا میڈیا ذرائع ابلاغ کیا ہو ،یہاں کا معاشرہ اور سماج کن حدود پر استوار ہو کیا قدریں اُس کی ہوں؟ اگر حضور اکرم ۖ پاکستان کے ایک چھوٹے سے گائوں میں آجائیں دیہات میں جہاں پر