ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
(4) نقصان کی صورت میں پالیسی ہولڈر اپنے سابقہ دیے ہوئے چندوں (یعنی ادا کیے ہوئے پریمیم)کی بنیاد پر اپنے نقصان کی تلافی کا دعوٰی نہ کرے بلکہ یوں دعوٰی کرے کہ میں وقف کے قواعد وضوابط کی بنیاد پر وقف کی طرف سے نقصان کی تلافی کا حقدار ہوں ۔(ماخوذ از کارروائی مجلس برائے غوروفکر'' شرکة التکافل'')دارالعلوم کراچی دسمبر2002ئ ہم کہتے ہیںاس نظام میں دوسقم ہیں : (1) حصہ دار جو خود واقف بھی ہیں اورمتولی بھی ہیں وہ خود ہی مضارب بھی بن جاتے ہیں حالانکہ مضاربت تودو فریقوں کے درمیان عقد ہوتا ہے جس میں ایک کی جانب سے مال ہوتاہے اور دوسرے کی جانب سے عمل ہوتاہے۔ چونکہ حصہ دار وقف کے اور تکافل فنڈ کے متولی ہیں لہٰذا وہ رب المال کے حکم میں ہیں وہ مضارب نہیںبن سکتے۔اگر یہ خیال کیاجائے کہ تکافل کمپنی تو خود ایک personہے لہٰذا اس کو رب المال سمجھ کر متولی مضارب بن سکتا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ کمپنی بذاتِ خود ایک معنوی شخصیت ہے حقیقی نہیں جو کسی قسم کا ایجاب وقبول یا کسی قسم کا تصرف کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔متولی اس کی نمائندگی کرتاہے اور اس کو Represent کرتا ہے لہٰذا وہ رب المال کا کردار تو ادا کرسکتا ہے لیکن مضارب نہیں بن سکتا۔ ( 2) حاملین وثائق ظاہر ہے کہ پریمیم یا چندہ اسی نیت سے دیں گے کہ نقصان کی صورت میں اس کا ازالہ ہو سکے گا۔ اس نیت کے ہوتے ہوئے اس چندے یا پریمیم کے وقف کرنے کی نیت خالص نہ رہے گی ۔رہا یہ خیال کہ واقف کوئی چیز وقف کرتے وقت اس سے خود نفع اُٹھانے کی نیت کرے تو شریعت میں یہ جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔خود نفع اُٹھانے کی دوصورتیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ یہ خود بھی اور دیگر لوگ بھی اس سے نفع اُٹھاتے ہوں یکون دلوہ فیہ کدلاء المسلمین اور دوسری یہ کہ اپنی موت تک خود نفع اُٹھائے بعد میں فقراء کے لیے ہو ۔ان دونون صورتوں میں فقراء کے لیے وقف جب اور جتنا ہے وہ بلا مزاحم ہے اورنیت میں کچھ خلل نہیں آتا جبکہ زیرِ بحث صورت میںآدمی بظاہر وقف کر رہا ہے لیکن یہ نیت ناگزیر ہے اور مزاحم ہے کہ میں یہ اپنے نقصان کے تدارک کے لیے وقف فنڈ میں رقم جمع کررہا ہوں اوربوقتِ ضرروت جمع کرائی ہوئی رقم سے کہیں زیادہ تدارک حاصل ہوگا۔ اور جب نیت کے خلوص میں فرق آئے گا تو قمار اپنی صورت دکھائے گا۔ یہ کہنا کہ پالیسی ہولڈر کا دینا محض تبرع ہے اور لینا وقف کے قواعد کے تحت ہے تو ایسا امتیاز کتابوں کی حد تک تو ہو سکتا ہے عوام کا اپنی نیتوں میں اس کا امتیاز کرنا اور اس کو برقرار رکھنا عملی اعتبار سے تقریباً ناممکن ہے۔