ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
وسنت اور دینِ اسلام پر اجتہاد و تحقیق کرنے کا نا اہلوں اور جاہلوں کو حق دینا کیوں توہین نہیں ؟ یقینا اس میں کتاب وسنت اور دین ِاسلام کی بہت بڑی توہین ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر کتاب وسنت کے حصہ قانون کو سمجھنا اتنا آسان ہے کہ ہر اُردوخواں اوراُردوتراجم پڑھ کر قانون اسلام کے عقدے حل کرسکتا ہے اور اسلامی قانون کے نکات سمجھ سکتا ہے حتی کہ اس کو اجتہاد کا حق بھی مل جاتا ہے تو پھر سکھانے اور سمجھانے کے لیے پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ قرآن دیدیا جاتا اسلامی احکام اُتار دئیے جاتے ہر ایک خود سمجھ لیتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ کتاب اللہ اور احکام الہیہ کے ساتھ رسول اللہ کوبھی مبعوث فرمایا تاکہ وہ کتاب اللہ سمجھائیں اور احکام الہیہ کی وضاحت فرمائیں ۔پس جیسے ڈاکٹروںکے مسئلہ میں ڈاکٹرکی رائے کا اعتبار ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے قانون دان یا بڑے سے بڑے انجینئر یا کسی بڑے سے بڑے سائنسدان اور ماہر ِاقصادیات کی رائے معتبر نہیں ہوتی کہ ہر فن میں اس فن کے ماہرین کی رائے حتمی اور حرفِ آخرہوتی ہے ۔کتاب وسنت میں بھی ایسے ہی ہونا چاہیے کہ مجہتدین اسلام کی رائے معتبر ہو ہر ایک کی نہیں لیکن اس کے برعکس کتاب وسنت اور قانونِ اسلام کی تعبیر و تشریح میںمسلمہ مجتہدین ِاسلام کی اجتہادی رائے قابل اعتبار اور قابلِ اعتماد نہیں۔اس پر اعتماد کرنا تقلیدی شرک اور ذہنی غلامی مگر ان کے مقابلہ میں آزاد منش، خواہش پسند اور نفس پرست جاہل لوگوں کی اپنی رائے معتبر ہے اور ہر اُردو خواں کو کتاب و سنت میں اجتہاد و تحقیق کا حق حاصل ہے ۔عجیب بات ہے کہ ماہرین ِشریعت اگرچہ صحابہ کرام یا تابعین و تبع تابعین ہوں اور ان کے علم وفہم پر اعتماد اور ان کی تقلید تو شرک وبدعت ہے مگر اپنے ناقص علم و فہم کی تقلید عین توحید وسنت ہے ،یہ ہے مسئلہ اجتہاد میں افراط و تفریط۔ قارئین کرام ! اگر آپ لوگ دو رِ برطانیہ اور اس کے مابعد زمانہ کی تاریخ پر غور کریں گے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ اس اجتہادی افراط وتفریط میں مبتلالوگوں کی قیادت وسیادت کا سہرا جن کے حصہ میں آیا ہے اس گم گشتہ راہِ حق قافلہ کی سربراہی کا شرف جن کو نصیب ہوا۔اس بے منزل ،بے راہ روطبقہ کے پیشرو ہونے کا جن کو اعزاز ملا اور جو اجتہاد و تحقیق کے عنوان سے ضلالت و گمراہی، الحاد و زندقہ ،مذہبی وفکری آوارگی پیدا کرنے اور مذہب کے نام پر لا مذہبیت پھیلانے میں استاذالکل ثابت ہوئے وہ انگریز ساختہ انڈین اہلِ حدیث (یعنی غیر مقلدین ) ہیں اور ان سب کے ہیروشیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین صاحب ہیں ۔ میاں صاحب نے ''معیار الحق ''کے نام سے مکروفریب اور جھوٹ کا پلندہ ایک کتاب تحریر کرکے مسلمہ ائمہ مجتہدین کے علم و فہم پر اعتماد و تقلید کو حرام ،شرک و بدعت کہہ کر اُن سے سرکشی وبغاوت اور اُن سے نفرت وعداوت کا ذہن پیدا کیا.... .....یہ باغیانہ گستاخانہ ذہن پیدا کرکے ان آزاد منش خودرائی کے مریض جہلا ء کو اجتہاد و تحقیق کے منصب پر فائز کر دیا ۔اب وہ بزعم خود اتنے بڑے محقق اور مجتہد ہیں کہ ان کے علم و فہم کے مقابلہ میں امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل تو کجا صحابہ کرام کے علم وفہم کی بھی کوئی اہمیت نہیں بلکہ ان نااہل اور جاہل مجتہدین کے