ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ہے''مدرسة الغرباء جامعہ قاسمیہ واقع شاہی مسجد''۔یہ مدرسہ ١٢٩٦ھ/ ١٨٧٨ء ماہ صفر سے جاری ہوا ۔ سب سے پہلے مدرس مولانا سیّد احمد حسن صاحب امروہوی تھے۔ جو مولانا رحمة اللہ صاحب کے شاگرد رشید تھے ۔مولانا رحمت اللہ صاحب بہت بڑے مناظر تھے۔ عیسائیوں کے پاس ان کا جواب نہ تھاانگریز اُن کی جان کے دُشمن ہو گئے انہوں نے یہ دیکھ کر سفر ہجرت کیا مکہ مکرمہ میں قیام اختیار فرمایا وہاں'' مدرسہ صولتیہ'' شروع کیا ۔''اظہار الحق'' نامی کتاب تحریر فرمائی جو عربی میں دو جلدوں میں ہے اور عیسائی مذہب کے بارے میں اعلیٰ ترین مناظر انہ کتاب شمار ہوتی چلی آئی ہے ۔مصرمیں پادری فنڈر کے مناظرہ میں علماء مصر کو تشویش ہوئی تو آپ کو مکہ مکرمہ سے بلایا آپ نے فرمایا کہ اسے میرے آنے کی خبر نہ دیں ورنہ مناظرہ کو ٹلا جائیگا ایسے ہی ہدایت پر عمل کیا وہ جب بالکل لا جواب ہوگیا تو اس نے اگلے دن جو ابات دینے کے لیے مہلت مانگی اور رات کو خود کشی کرلی ۔یہ اس زمانہ میں عیسائیوں کا سب سے بڑا چرب زبان پادری تھا۔مولانا رحمت اللہ صاحب کی وفات مکہ مکرمہ میں ہوئی وہیںجنت المعلی میں مدفون ہیں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ بھی ایک کمرے میں قیام فرما تھے ۔وہ کمرہ مدرسہ صولیتہ میں اب بھی بحالہ موجود ہے حضرت مولانا زکریا صاحب دامت برکاتہم مکہ مکرمہ میں اسی میں قیام فرماتے ہیں اور قبر مبارک بھی جنت المعلی میں مولانا رحمت اللہ کے پہلو بہ پہلو ہے ۔غرض مولانا سیّد احمد حسن صاحب ان کے شاگرد تھے انہوں نے تدریس کا آغاز کیا تنخواہ ٣٥ روپے ماہانہ مقرر کی گئی تھی ۔(از روداد٩٦ھ ) حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی قدس سرہ نے ١٣٠٠ ھ میں مدرسہ کا سالانہ امتحان لیا تو تعلیمی حالت سے خوش ہو کر فرمایا : اگر چند سال ایسی صورت رہی تو یہ مدرسہ تما م مدارس عربیہ میں مثل مدرسۂ دیوبند نہایت نام آور اور مشہور ہوگا ''۔ ( از روداد مدرسہ ١٣٠٠ ھ) ۔اس مدرسہ سے بہت بڑے بڑے حضرات فارغ التحصیل ہوئے ۔حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب ابن حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ ،مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ،ریاض الدین صاحب افضل گڑھی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند ، مولا نا عبدالغفور صاحب غزنو ی قاضی القضاة غزنی ،محمود طرزی وزیر اعظم افغانستان، اپنے حضرت مفتی محمود صاحب اور دیگر بہت بڑے بڑے اکابر اسی مدرسہ کے فارغ شدہ ہیں ۔حضرت نانوتوی قدس سرہ کے تعلقات اہلِ مرادآباد سے چلے آرہے تھے آپ کے ایک خلیفہ حضرت مولانا محمد صدیق صاحب مراد آبادکے رہنے والے تھے ، اور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ ان کے زمانہ سے لے کر ان کے پڑ پوتوں کے زمانہ تک ہمیشہ ان کے اسی مکان میں محلہ '' بَغیہ ''میں قیام فرماتے رہے ،حالانکہ مکان نہایت خستہ ہو چکا تھا اورٹھہرنے کے لیے عمدہ سے عمدہ انتظام ہو سکتا تھا۔ مراد آباد میں ایک محلہ کا نام ''گلشہید'' ہے وہاں شہداء ١٨٥٧ء کے مزارات ہیں یہ لفظ گلہ اور شہیدسے مرکب معلوم ہوتا ہے مرادآباد میں انگریزوںنے کئی اضلاع کے لیے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا تھا ۔ اہلِ مراد آباد میں یہ روایت چلی